کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 228
دعائے قنوتِ نازلہ:
کفار کے ساتھ جنگ، مسلمانوں پر آمدہ مصیبت اور غلبۂ کفار کے وقت دعائے قنوت پڑھنی چاہیے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فجر کی نماز میں (رکوع کے بعد) قنوت کرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے:
اللَّهُمَّ اغفِر لَنا وَلِلْمُؤمنينَ، والمُؤْمِناتِ والمسلِمينَ والمُسْلِماتِ، وألِّف بينَ قلوبِهِم وأصلِح ذاتَ بينِهِم، وانصُرهم على عدوِّكَ وعدوِّهم، اللَّهمَّ العَن كفَرةَ أَهْلِ الكِتابِ الَّذينَ يصدُّونَ عَن سبيلِكَ ويُكَذِّبونَ رُسُلَكَ، ويقاتِلونَ أولياءَكِ، اللَّهمَّ خالِف بينَ كلِمتِهِم، وزَلزِلْ أقدامَهُم، وأنزِلْ بِهِم بأسَكَ الَّذي لا تردُّهُ عنِ القومِ المُجرمينَ
’’اے اللہ! ہمیں اور تمام مومن مردوں، مومن عورتوں، مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دے۔ان کی آپس میں اصلاح فرما دے۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما۔ الٰہی! اہل کتاب کے کافروں پر اپنی لعنت فرما جو تیری راہ سے روکتے، تیرے رسولوں کو جھٹلاتے اور تیرے دوستوں سے لڑتے ہیں۔ الٰہی! ان کے درمیان پھوٹ ڈال دے، ان کے قدم ڈگمگا دے اور ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرما جو تو مجرم قوم سے نہیں ٹالتا۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کافروں پر بد دعا یا مسلمانوں کے لیے نیک دعا کا ارادہ فرماتے تو آخری رکعت کے رکوع کے بعد سَمِع اللهُ لمَن حَمِدَ رَبَّنا لك الحَمدُ کہنے کے بعد اونچی آواز سے دعا فرماتے۔[2]
(قنوتِ نازلہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک پانچوں نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے آمین کہتے تھے۔[4]
[1] [صحیح] السنن الکبرٰی للبیھقي، الصلاۃ: 211,210/2، حدیث: 3143۔ امام بیہقی نے اسے صحیح کہا ہے۔ اس کی سند قوی ہے کیونکہ ابن جریج کی عطاء بن ابی رباح سے روایت قوی ہوتی ہے۔
[2] صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560,4559، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 675۔
[3] [صحیح] مسند أحمد: 137/3، حدیث: 12402، یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
[4] [حسن] سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443۔ امام حاکم نے المستدرک: 226,225/1 میں، حافظ ذہبی نے اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 618 میں اسے صحیح کہاہے۔ اس روایت کی سند حسن ہے۔ یزید نے ہلال بن خباب سے اس کے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔