کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 227
تنبیہات
٭ دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے، البتہ مصنف ابن ابی شیبہ (101/2 في رفع الیدین في قنوت الوتر) میں بعض آثار ملتے ہیں۔ اس لیے ہاتھ اٹھا کر یا ہاتھ اٹھائے بغیر، دونوں طریقوں سے قنوت وتر کی دعا پڑھنا صحیح ہے۔[1]
٭ رَبَّنا وتَعالَيتَ کے بعد ((نستغفِرُك ونتوبُ إليك)) کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں موجود نہیں، بلکہ محض یہ بعض علماء کی طرف سے اضافہ ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے الحمدُ للَّهِ و الصلاةُ والسَّلامُ على رسولِ اللَّهِ کہا، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: میں بھی الحمدُ للَّهِ و الصلاةُ والسَّلامُ على رسولِ اللَّهِ کہہ سکتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ تعلیم نہیں دی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ چھینک آنے پر الحمدُ للَّهِ على كلِّ حالٍ پڑھا جائے۔‘‘[2]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَن أحْدَثَ في أمْرِنا هذا ما ليسَ منه فَهو رَدٌّ ))
’’جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ [3]
معلوم ہوا کہ مسنون اذکار اور دعاؤں میں اپنی طرف سے کسی قسم کا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
صحیح ابن خزیمہ (حدیث: 1100) میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں قیام اللیل کراتے اور قنوت میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے تھے، لہٰذا قنوتِ وتر کے آخر میں صلَّى اللهُ على النبيِّ پڑھنا درست ہے۔
[1] بعض ائمہ کے اقوال کے لیے دیکھیے تحفۃ الأحوذي: 486/2۔
[2] [حسن] جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2738، وسندہ حسن، امام حاکم اور امام ذہبی نے المستدرک: 266,265/4 میں اسے صحیح کہا ہے۔
[3] صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697، وصحیح مسلم، الأقضیۃ، حدیث: 1718، نیز دیکھیے جزء لوین: 71 بلفظ ’من أحدث في دیننا مالیس فیہ فھو رد‘ وسندہ صحیح۔