کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 226
سے پہلے کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی تو پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: یہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے۔ وہ (رات کو نفل )نماز پڑھتی رہتی ہیں، پھر جب سست ہو جاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو تھام لیتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے کھول دو، ہر شخص اپنی نشاط اور چستی کے مطابق نماز پڑھے، پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘ [1] نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اتنا ہی عمل اختیار کرو جس قدر تمھیں طاقت ہو۔ اللہ کی قسم ! اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا لیکن تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے۔‘‘[2] سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے تاکہ میں انھیں قنوت وتر میں کہوں: اللهمَّ اهدِني فيمن هديتَ وعافِني فيمن عافيتَ وتولَّني فيمن تولَّيتَ وبارِكْ لي فيما أعطيتَ وقِني شرَّ ما قضيتَ إنك تَقضي ولا يُقضى عليك وإنه لا يَذِلُّ من واليتَ [ولا يعِزُّ من عاديتَ] تباركتَ ربَّنا وتعاليتَ ’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کی جماعت میں شامل فرما جنھیں تونے رشد وہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنھیں تونے عافیت بخشی ہے اور جن لوگوں کو تونے اپنا دوست بنایا ہے، ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے۔ جوکچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لیے برکت ڈال دے اور جس شر وبرائی کا تو نے فیصلہ فرما یا ہے، اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو والی بنا، وہ کبھی ذلیل وخوار اور رسوا نہیں ہو سکتا اور وہ شخص عزت نہیں پا سکتا جسے تو دشمن کہے۔ ہمارے پروردگار! تو (بڑا )ہی برکت والا اور بلند وبالا ہے۔ ‘‘[3]
[1] صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1150، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 784۔ [2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 785۔ [3] [صحیح] سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1426,1425، وھو حدیث صحیح، وجامع الترمذي، الوتر، حدیث: 464، امام ترمذی نے اسے حسن اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1095 میں صحیح کہا ہے۔