کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 224
میں اٹھ سکے، وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔‘‘ [1]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات، رات کے وسط اور پچھلی رات، یعنی رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں۔[2]
سعد بن ہشام رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے مومنوں کی ماں! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتلائیں تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتی تھی۔ پھر جب اللہ چاہتا آپ کو رات کے وقت اٹھاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے اور نو رکعات نماز (وتر) پڑھتے۔ (سات رکعتوں میں ’’التحیات‘‘ نہ بیٹھتے بلکہ) آٹھویں رکعت کے بعد قعدے میں بیٹھتے، پس اللہ کو یاد کرتے، اس کی تعریف کرتے اور دعا مانگتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے اور (اس کے بعد آخری قعدے میں )بیٹھ جاتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا مانگتے، پھر سلام پھیرتے اور ہمیں سلام کی آواز سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا فرماتے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: بیٹا! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی عمر کو پہنچے اور جسم بھاری ہو گیا توآپ سات رکعات وتر پڑھتے تھے اور بعد میں دو رکعتیں بھی پڑھتے، یوں نو رکعات ہو جاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اپنی نماز پر ہمیشگی کریں۔ جب نیند یا بیماری کا غلبہ ہوتا اور رات کو قیام نہ کر سکتے تو دن میں بارہ رکعات نفل پڑھتے اور میں نہیں جانتی کہ آپ نے ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو یا ساری رات نماز پڑھی ہو یا رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں پورا مہینہ روزے رکھے ہوں۔[3]
اس حدیث شریف سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک سلام کے ساتھ)نو وتر پڑھے اور سات بھی۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتوں کے بعد التحیات نہیں بیٹھتے تھے بلکہ صرف آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھتے اور سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور پھر آخری طاق رکعت کے آخر میں حسب معمول تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے۔
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 755۔
[2] صحیح البخاري، الوتر، حدیث: 996، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 745۔
[3] صحیح مسلم، صلا ۃ المسافرین، حدیث: 746۔