کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 222
والی دو رکعتوں سے ہلکی ہوتی تھیں۔[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ (آخری) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر) بات چیت بھی کرتے تھے۔[2] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو اور ایک رکعت میں سلام سے فصل (جدائی) کرتے۔[3] یعنی تین وتر بھی اس طرح پڑھتے تھے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے اور پھر اٹھ کر تیسری رکعت الگ پڑھتے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (انھوں نے صحیح کام کیا ) وہ فقیہ ہیں اور صحابی بھی۔[4] امام مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فصل (وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھنے )والی احادیث زیادہ ثابت ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کبھی سات، کبھی نو اور کبھی گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [5] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل سات رکعات سے تیرہ رکعات تک فرمایا ہے۔ پانچ، تین اور ایک وتر: سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے، لہٰذا جو شخص پانچ رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (پانچ رکعات) پڑھے اور جو کوئی تین رکعات وتر پڑھنا چاہے تو (تین رکعات )پڑھے اور جو کوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے تو (ایک رکعت وتر )پڑھے۔‘‘ [6]
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 765۔ [2] [صحیح] سنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 1177، وھو حدیث صحیح، والمصنف لابن أبي شیبۃ: 291/2، حدیث: 6803، امام بوصیری نے اسے صحیح کہا ہے، نیز دیکھیے صحیح مسلم: 736، ترقیم دارالسلام: 1718، اور صحیح ابن حبان، الموارد: 678۔ [3] [صحیح] صحیح ابن حبان [الإحسان]: 2424، دوسرا نسخہ: 2433، وسندہ صحیح۔حافظ ابن حجر نے فتح الباري: 482/2 میں اسے قوی کہا ہے۔ [4] صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث: 3765,3764۔ [5] صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1139۔ [6] [صحیح] سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1422، وسندہ صحیح، وسنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 1190، امام حاکم نے المستدرک: 303,302/1 میں، امام ذہبی نے اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 670میں اسے صحیح کہاہے۔