کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 221
آپ اونچی آواز میں (قراء ت کے ساتھ) نفل پڑھ رہے تھے۔ ‘‘ انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں سوئے ہوؤں کو بیدار کرنا چاہتا تھا (تاکہ وہ بھی تہجد پڑھیں) اور شیطان کو بھگانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ذرا اونچی آواز سے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ذرا نیچی آواز سے پڑھنے کا حکم دیا۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ شب کا معمول:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب کا معمول بتاتے ہوئے فرماتی ہیں: رمضان ہوتا یا غیر رمضان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کی نماز بالعموم) گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ( پہلے )آپ چار رکعت پڑھتے تھے، ان رکعتوں کی خوبی اور لمبائی کچھ نہ پوچھو، پھر آپ چار رکعت پڑھتے، ان کی خوبی اور لمبائی کا(بھی )کچھ نہ پوچھو۔ پھر (آخر میں) آپ تین رکعت (وتر) پڑھتے۔[2]
قیام اللیل کا طریقہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بالعموم وتر پڑھنے کا طریقہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یوں بیان فرماتی ہیں کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے۔ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی یہی تعلیم دی، چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رات کی نماز دو، دو رکعت ہے۔ جب صبح (صادق) ہوجانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ (ایک رکعت، پہلی ساری )نماز کو طاق بنا دے گی۔‘‘ [4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وتر آخر رات میں ایک رکعت ہے۔‘‘ [5]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم رات کو نوافل پڑھنا شروع کرو تو پہلے دو ہلکی رکعتیں ادا کرو۔‘‘ [6]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کا قیام کیا۔ پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر دو طویل رکعتیں پڑھیں، بعدازاں ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں پڑھیں، پھر ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں، اس کے بعد ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں، پھر ان سے ہلکی دو طویل رکعتیں اور پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دو رکعتیں پہلے
[1] [حسن] سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1329، وسندہ حسن، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1161 میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 656 میں، امام حاکم نے المستدرک: 310/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[2] صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1147، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 738۔
[3] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 736-(122)۔
[4] صحیح البخاري، الوتر، حدیث: 993-990، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 749۔
[5] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 752۔
[6] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 768۔