کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 220
گیا اور اس کے عذاب سے پناہ مانگی گئی، چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین سوال کیے جن میں سے دو قبول ہوئے: ایک سوال یہ کہ اللہ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح تباہ و برباد نہ کرے۔ اسے اللہ نے قبول فرمایا۔ دوسرا سوال یہ کہ میری (ساری) امت پر (بیک وقت) دشمنوں کو غلبہ حاصل نہ ہو۔ یہ بھی قبول کر لیا گیا۔ پھر میں نے سوال کیا کہ امت محمدیہ میں اختلاف رونما نہ ہو، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے نوافل میں کبھی سّری (آہستہ) اور کبھی جہری (بلند آواز سے) قراء ت فرماتے۔ [2] وضاحت: نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساری رات نماز پڑھنے کا معمول نہیں تھا مگر کبھی کبھار ایسا بھی کر لیتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں صبح تک نماز پڑھنے کا ذکر ہے یا سنن نسائی کے حوالے سے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث پیچھے گزر چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کی یا رمضان المبارک کے آخری عشرے کی راتوں میں((أحيا ليلة )) ’’تمام شب عبادت کی۔‘‘ [3] چنانچہ ساری رات جاگ کر عبادت کرنے کو معمول بنا لینا اور اس پر ہمیشگی کرنا یا اکثر ایسا کرنا خلاف سنت ہے لیکن کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔[4] جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں نوافل ادا کرتے تو حجرے میں آپ کی قراء ت سنائی دیتی تھی۔[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے تو آپ نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آہستہ قراء ت سے نوافل پڑھ رہے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نوافل میں اونچی آواز سے قراء ت کر رہے ہیں۔ جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ابوبکر! رات میں آپ کے پاس سے گزرا، آپ پست آواز سے نوافل پڑھ رہے تھے۔‘‘ انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! جس (اللہ) سے میں سرگوشی کر رہا تھا اس تک میری آواز پہنچ رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’رات کو میرا آپ کے پاس سے گزر ہوا،
[1] [صحیح] سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث: 1639، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، الفتن، حدیث: 2175۔ امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 1830 میں اور امام ترمذی نے اسے حسن غریب صحیح کہا ہے۔ [2] [صحیح] جامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 449، وسندہ صحیح، وسنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 1354۔ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ سنن أبي داود، حدیث: 1437۔ [3] صحیح البخاري، حدیث: 2024۔ [4] صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم للألباني، ص: 105۔ [5] [حسن] سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1327۔ اس کی سند حسن ہے۔