کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 22
’’بے شک انسان نماز ادا کرتا ہے لیکن اس کے نامۂ اعمال میں اس (نماز)کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔‘‘ [1] شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں پوری تفصیل کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات، آداب، ہیئت، دعاؤں اور اذکار کا علم ہو، پھر اس کے مطابق نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی ایسی ہوگی جو بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے اور ہمارے نامۂ اعمال میں وہ اجر وثواب لکھا جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ [2] تنبیہ: عرض ہے کہ واجبات و آداب وغیرہ کا علم ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ خود تحقیق کرکے یا کسی مستند اور صحیح العقیدہ عالم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم حاصل کیاجائے اور پھر سنت کے مطابق نماز پڑھی جائے۔ نماز کی قبولیت کے لیے شرط اول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ اللہ کی بیوی ہے، نہ اولاد۔ کوئی اللہ کے نور کا ٹکڑا ’’نور من نور الله‘‘ نہیں ہے۔ اللہ کے کسی انسان میں اتر آنے کا عقیدہ، حلول، وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کھلم کھلا شرک ہے۔ یہ بھی مانا جائے کہ کائنات کے تمام امور صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ عزت و ذلت اسی کے پاس ہے۔ ہر نیک و بد کا وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے: 1.عقیدے کی درستی 2. نیت کی درستی 3. عمل کی درستی۔ ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب اللہ، سنت ثابتہ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع امت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی
[1] [حسن] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 796، بعد الحدیث: 789۔ [2] صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، ص: 36، مطبوعۃ مکتبۃ المعارف ۔