کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 219
اور دن کو روزہ رکھتے ہو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تمھاری آنکھ کمزور اور طبیعت سست ہو جائے گی۔ تمھاری جان اور تمھارے بال بچوں کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ رات کو قیام کرو اور سویا بھی کرو۔‘‘ [1]
اس سے معلوم ہوا کہ کسی امتی کا ساری رات عبادت میں گزارنا درست نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم مدت میں قرآن مجید ختم کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’ایک ماہ میں قرآن پاک ختم کر لیا کرو۔‘‘ انھوں نے عرض کی کہ میں اس سے زیادہ تلاوت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
’’تو بیس دن میں ختم کر لیا کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چلو، دس دنوں میں ختم کر لیا کرو۔‘‘ انھوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔‘‘[2] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قرآن پاک تین دن میں ختم کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا : ’’اس شخص نے قرآن پاک کو پوری طرح سمجھاہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن پاک ختم کیا۔‘‘[3]
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص رات کے نوافل میں دو سو آیات تلاوت کرتا ہے، وہ اطاعت گزار اور مخلص لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔‘‘[4] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات نوافل نہیں پڑھتے تھے۔[5]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں:
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ، جو بدری صحابی ہیں، ایک رات نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ فرماتے ہیں کہ آپ تمام رات بیدار رہے اور نوافل ادا کرتے رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آج رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح نوافل پڑھے، اب سے پہلے میں نے کبھی آپ کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے ٹھیک کہا۔ یہ وہ نماز تھی جس میں اللہ کے ساتھ اشتیاق بڑھایا
[1] صحیح البخاري، التھجد، باب 20، حدیث: 1153۔
[2] صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5054، وصحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1159۔
[3] [صحیح] سنن أبي داود، شھر رمضان، حدیث: 1390، وھو حدیث صحیح، وجامع الترمذي، القراء ات، حدیث: 2949، امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[4] [حسن] المستدرک: 309/1، حدیث: 1161، وصحیح ابن خزیمۃ: 1143، اس روایت کی سند حسن ہے۔ سعد بن عبدالحمید جمہور کے نزدیک موثق راوی ہے، لہٰذا حسن الحدیث ہے۔
[5] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 746۔