کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 212
تہجد، قیام اللیل، قیام رمضان اور وتر
فضیلت:
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عليكم بقِيامِ الليلِ فإنه دَأبُ الصالحينَ قبلَكم، وهُوَ قُربةٌ لكم إلى ربِّكم، ومُكَفِّرَةٌ لِلسَّيِّئاتِ، ومَنهاةٌ عَن الإثمِ))
’’تہجد ضرور پڑھا کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے صالحین کی روش ہے اور تمھارے لیے اپنے رب کے قرب کا وسیلہ، گناہوں کے مٹانے کا ذریعہ اور (مزید)گناہوں سے بچنے کا سبب ہے۔‘‘[1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص پر اللہ کی رحمت ہو جو رات کو اٹھا، پھر نماز (تہجد )پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا، پھر اس نے بھی نماز پڑھی۔ پھر اگر بیوی (غلبۂ نیند کے باعث) نہ جاگی تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اس عورت پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو رات کو اٹھی، پھر نماز (تہجد) پڑھی اور اپنے خاوند کو جگایا۔ (پھر اس نے بھی نماز پڑھی) پھر اگر خاوند (غلبۂ نیند کے باعث) نہ جاگا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘[2]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرض نماز کے بعد سب نمازوں سے افضل، رات (تہجد) کی نماز ہے۔‘‘[3]
[1] [حسن] صحیح ابن خزیمۃ، صلاۃ التطوع باللیل، حدیث: 1135، وسندہ حسن، جامع الترمذي: 3549 ب، وسندہ حسن۔ حافظ عراقی نے اسے حسن جبکہ امام حاکم: 308/1 اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
[2] [حسن] سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1308، وسندہ حسن، امام حاکم اور امام ذہبی نے المستدرک: 309/1 میں، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1148 میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 646 میں، اور امام نووی نے المجموع: 46/4 میں اسے صحیح کہا ہے۔
[3] صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1163۔