کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 211
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی رضامندی کی دلیل ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں یہ تقریری حدیث کہلاتی ہے۔
ایک شخص مسجد میں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے فرض پڑھ رہے تھے۔ اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں سنت پڑھیں، پھر جماعت میں شامل ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’تو نے فرض نماز کسے شمار کیا جو اکیلے پڑھی تھی یا جو ہمارے ساتھ جماعت سے پڑھی ہے؟‘‘ [1]
معلوم ہوا کہ فرض نماز ہوتے وقت سنتوں کا پڑھنا درست نہیں۔
نمازوں کی رکعات:
1. نماز فجر: دو فرض، اس سے پہلے دو سنتیں ہیں (کل چار رکعت)۔
2. نماز ظہر: چار فرض، اس سے پہلے چار سنتیں اور بعد میں دو سنتیں( کل دس رکعت)۔
3. نماز عصر: چار فرض۔
4. نماز مغرب: تین فرض ہیں، اس کے بعددو سنتیں (کل پانچ رکعت)۔
5. نماز عشاء: چار فرض ہیں اور نماز عشاء کے بعد دو سنتیں( کل چھ رکعت)۔
نماز وتر دراصل رات کی نماز ہے جو تہجد کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے۔ جو لوگ رات کے آخری حصے میں نہ اٹھ سکتے ہوں، وہ وتر بھی نماز عشاء کے ساتھ ہی پڑھ لیا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَن خافَأن لّا يقومَمِن آخِرِ الليلِ فليوتِرْ أوَّلَهُ))
’’جسے خطرہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا وہ اول شب ہی وتر پڑھ لے۔‘‘ [2]
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 712۔
[2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 755۔