کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 210
معلوم ہوا کہ جمعے کے بعد چار رکعات سنتیں پڑھنی چاہئیں اور اگر کوئی دو رکعتیں بھی پڑھ لے تو جائز ہو گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ اپنے گھر تشریف لے جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے تھے۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد دو رکعت سنت پڑھنا بھی صحیح ہے، جبکہ چار رکعت پڑھنا قولی حدیث کی و جہ سے زیادہ بہتر اور مزید فضیلت کا باعث ہے۔[2]
فجر کی سنتوں کی فضیلت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ فجر کی دو سنتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے بہتر ہیں۔‘‘ [3]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل (سنن)میں سے کسی چیز پر اتنی محافظت اور مداومت و ہمیشگی نہیں کرتے تھے جس قدر فجر کی دو سنتوں پر کرتے تھے۔ [4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے تھے۔[5]
فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد پڑھنے کا جواز:
اگر آپ ایسے وقت مسجد میں پہنچیں کہ جماعت کھڑی ہوگئی ہو اور آپ نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو اس وقت سنتیں مت پڑھیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نماز کی اقامت (تکبیر ) ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ [6]
ایسی صورت میں آپ جماعت میں شامل ہو جائیں اور فرض پڑھ کر سنتیں پڑھ لیں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صبح کی فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا: ’’صبح کی (فرض) نماز دو رکعتیں ہیں تم نے مزید دو رکعتیں کیسی پڑھی ہیں؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا: میں نے (فرضوں سے پہلے) دو رکعتیں سنت نہیں پڑھی تھیں، انھیں اب پڑھا ہے۔ (یہ سن کر )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔[7]
[1] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث:937، وصحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: 882۔
[2] مرعاۃ المفاتیح، حدیث: 1175۔
[3] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 725۔
[4] صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1169، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 724-(94)۔
[5] صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1160، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 736-(122)۔
[6] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 710۔
[7] [صحیح] سنن الدارقطني، الصلاۃ: 384,383/1، حدیث: 9، والسنن الکبرٰی للبیھقي، الصلاۃ: 456/2، حدیث: 4391، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1116 میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 624 میں، امام حاکم نے المستدرک: 275,274/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے، لہٰذا اسے منقطع کہنا غلط ہے۔