کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 207
ہوا کہ اس کا اہتمام نہ کرنا سنت ہے کیونکہ یہ بات ناممکن ہے کہ ایک چیز دین بھی ہو اور عہد نبوت میں کر سکنے کے باوجود اسے کوئی نہ کرے یا وہ عمل کیا گیا ہو مگر مقبول احادیث کے وسیع ذخیرے میں اُس کا کوئی سراغ ہی نہ ملے۔
٭ انسان فطرتًا سہولت پسند ہے، اسے مسنون دعائیں یاد کرنا ’’گراں ‘‘ گزرتا ہے اور چونکہ اس کی مصروفیات بھی بہت زیادہ ہیں، اس لیے وہ فرض نمازوں کے بعد یکسوئی کے ساتھ پانچ، چھ منٹ نہیں نکال سکتا اور اس سنت سے پہلو بچانے کے لیے اس کا متبادل ایجاد کر لیا گیا، یعنی مولوی صاحب سلام پھیرتے ہی ہاتھ اٹھائیں، چند مسنون و غیر مسنون الفاظ پر مشتمل چھوٹے چھوٹے جملے بولیں اور منہ پر ہاتھ پھیر کر تمام نمازیوں کو فارغ کر دیں جس کے بعد وہ سب (مسنون اذکار پڑھے بغیر) اُٹھ کر چل دیں۔
درحقیقت یہ دعا نہیں، رسم ہے جو انتہائی نیک نیتی سے ہر فرض نماز کے بعد ادا کی جاتی ہے اور اس طرح غیر شعوری طور پر ایک سنت کو مٹانے کا گناہ کیا جا رہا ہے۔ افسوس کہ لوگوں کو بدعتوں پر عمل کرنے کے لیے تو بڑا وقت مل جاتا ہے مگر سنت کو اپنانے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ یہ طرز عمل بہت افسوسناک ہے۔ اس سے گریز اور پرہیز کرنا چاہیے اور ہر موقع محل کی سنت پر عمل کا التزام کرنا چاہیے۔
٭ فرض نمازوں کے بعد مسنون اذکار اور دعائیں چھوڑ کر ان کے متبادل لا إلَهَ إلّا اللَّهُ کے اجتماعی ورد اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کو اس لیے بھی رواج دیا گیا ہے کہ یہ باتیں
ہمارے مسلک کی علامت اور پہچان بن جائیں۔ کیا کسی مسلک کے تحفظ کے لیے شرعی مسائل و احکام سے اس طرح رُوگردانی جائز ہے؟ اسلام کا حکم کیا ہے؟ فرقہ واریت کو مٹایا جائے یا اسے فروغ دیا جائے؟
٭ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا فی نفسہ جائز ہے لیکن اس جائز بات کا ٹکراؤ ایک سنت سے ہو رہا ہے، لہٰذااسے اپنا معمول نہیں بنانا چاہیے کیونکہ سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس بات کا زیادہ حق رکھتی ہے کہ وہ ہر مسلمان کا معمول، مسلک اور پہچان بنے، لہٰذاہمیں عموماً انھی اذکار اور دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے جو ہمارے پیارے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ آمین!