کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 206
سنت کو ختم کر دیا جائے کیونکہ لا إلَهَ إلّا اللَّهُ کا وردمؤخر ہو سکتا ہے لیکن نماز کے بعد والے مسنون اذکار اور دعائیں ہمیشہ مؤخر کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ویسے بھی کورس کی شکل میں بلند آواز سے لا إلَهَ إلّا اللَّهُ کے اجتماعی ورد کی پورے عہد نبوت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ٭ اگر کسی موقع کی سنت کے ساتھ ایک اور سنت آملے تو دونوں سنتوں پر عمل کرنا درست ہو گا، مثلاً: کسی فرض نماز کی جماعت ہوئی، امام صاحب نے سلام پھیرا، امام صاحب اور مقتدی حضرات اپنے طور پر مسنون اذکار اور دعاؤں میں مصروف ہو گئے، پھر کسی واقعی حاجت مند نے امام صاحب سے بارش کے لیے یا بیمار کے لیے یا کسی دوسرے جائز مقصد کے لیے (رسم بنانے کے طور پر نہیں بلکہ) خلوصِ نیت سے دعا کی درخواست کی تو کسی کے مطالبے پر دعا کرنا بھی سنت ہے، لہٰذادعا کرنا جائز ہو گا۔ ٭ یاد رکھیے ! ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا فرض نماز کا حصہ ہے، نہ بعد والے مسنون اذکار کا، اس لیے اس کا دائمی اہتمام کرنا درست نہیں کیونکہ فرض نماز ایک الگ عبادت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا ایک الگ عبادت ہے اور جب کسی شرعی دلیل کے بغیر: 1.دو الگ الگ عبادتوں کوایک مخصوص ترتیب کے ساتھ ہمیشہ ایک ساتھ اِس طرح ادا کیا جائے کہ 2.دونوں ایک دوسرے کا حصہ معلوم ہوں حتیٰ کہ ایک کے بغیر دوسری کو نامکمل سمجھا جانے لگے، نیز 3.ایک شرعی مسئلے کی طرح لوگوں کو اس کی دعوت، ترغیب اور تعلیم دی جائے 4.اور جو شخص ان عبادات کو آپ کے طریقے کے مطابق ادا نہ کرے، اسے منکر اور گستاخ کے القابات سے نوازا جائے تو آپ راہ سنت سے بھٹک جائیں گے کیونکہ جب مختلف عبادات کو اپنی مرضی سے یکجا کر کے ایک نیا طریقہ رائج کیا جائے تو وہ سنت نہیں رہتا، بدعت بن جاتا ہے۔ ٭ بات اصول کی ہے جو کام نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ضروری بھی ہو اور اسے کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو، پھر بھی پورے عہد نبوت میں اس کے کیے جانے کا کوئی ثبوت نہ ملے مگر ہم نہ صرف خود اسے ہمیشہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں تو یہ بلاشبہ بدعت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عہد نبوت میں فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کا اہتمام کرنے میں کوئی رکاوٹ تھی؟ یقینا نہیں تھی، پھر بھی اگر کسی فرض نماز کے بعد اس کا کبھی اہتمام نہیں کیا گیا تو اس سے معلوم