کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 203
نہایت تعجب کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے، پانچوں وقت نمازیں پڑھائیں، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہ کرے تو یہ اس کے بطلان کی واضح دلیل ہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی انفرادی طورپر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہم اور بہت سے محققین علماء نے فرض نماز کے بعد مروجہ اجتماعی دعا کا انکار کیا ہے اور اسے بدعت کہا ہے۔ اجتماعی دعا کی دلیل میں بیان کی جانے والی تمام روایات ضعیف ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کرے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو نامراد نہیں لوٹاتا۔[1] 1 اس کی سند میں اسحاق بن خالد ہے جو منکر احادیث بیان کرتا ہے۔ 2 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (اس کے ایک اور راوی) عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن کی خصیف سے بیان کردہ روایات جھوٹی اور من گھڑت ہوتی ہیں۔ 3 خصیف کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں۔ 4 علاوہ ازیں اس روایت میں اجتماعی دعا کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ٭ (کہا جاتا ہے کہ) سیدنا یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کا سلام پھیرا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ اس روایت کے متعلق مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کتب حدیث میں سیدنا یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکورہ الفاظ: ’’دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی‘‘ سرے سے موجود ہی نہیں۔ بلکہ اصل حدیث، جس کی سند حسن ہے، کو دیکھنے سے دعا نہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے، یزید بن اسود کہتے ہیں: میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کرنے حاضر ہوا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں صبح کی نماز پڑھی۔ جب آپ
[1] [ضعیف جدًا] عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، حدیث: 138۔