کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 20
حرفِ آغاز
تمام تر حمد و ثنا اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندوں پر نماز فرض کی، اسے قائم کرنے اور اچھے طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا، اس کی قبولیت کو خشوع و خضوع پر موقوف ٹھہرایا، اسے ایمان اور کفر کے درمیان فرق و امتیاز کی علامت اور بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو، جنھیں اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾
’’اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) اتارا ہے تاکہ جوکچھ لوگوں کے لیے نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کر دیں۔‘‘[1]
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے کمر بستہ ہوگئے اور جو شریعت آپ پر نازل ہوئی، آپ نے اسے پوری طرح روشن کر کے لوگوں کے سامنے پیش کر دیا، تاہم نماز کی اہمیت کے پیش نظر اسے نسبتاً زیادہ واضح شکل میں اُجاگر کیا اور اپنے قول و عمل سے اس کا عام پرچار کیا یہاں تک کہ ایک بار نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز کی امامت فرمائی، قیام اور رکوع منبر پر کیا، نیچے اتر کر سجدہ کیا، پھر منبر پر چڑھ گئے اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:
إنَّما صَنَعْتُ هذا لِتَأْتَمُّوابی ولِتَعَلَّمُوا صَلاتِي
’’میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ تم (نماز ادا کرنے میں) میری اقتدا کر سکو اور میری نماز (کی کیفیت) معلوم کر سکو۔‘‘ [2]
نیز اس سے بھی زیادہ زور دار الفاظ میں اپنی اقتدا کو واجب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
[1] النحل 44:16
[2] صحیح البخاري، الجمعۃ، حدیث: 917، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 544