کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 197
میں خود اپنی طرف سے دعائیہ جملے بڑھا کر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادتی کی ہوئی ہے۔ معاذ اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جملے بھول گئے تھے یا دعا ناقص چھوڑ گئے تھے جس کی تکمیل اب امتیوں نے کی ہے؟ اگر کوئی پوچھے کہ ان بڑھائے ہوئے جملوں میں کیا خرابی ہے؟ ان کا ترجمہ بہت اچھا ہے۔ آخر یہ دعا ہی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے آگے پیش کی جاتی ہے۔ گزارش ہے کہ انسان اپنی مادری یا عربی زبان میں جو دعا چاہے اپنے مالک سے کرے، جو جملے چاہے دعا میں پڑھے، کوئی حرج نہیں مگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی طرف سے الفاظ یا جملے بڑھانے ناجائز ہیں۔ ایسا کرنے سے دین کی اصل صورت قائم نہیں رہتی۔ ٭ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اے معاذ! اللہ کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: میں بھی آپ کو اپنا دوست رکھتا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تو مجھے دوست رکھتا ہے (تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ) ہر (فرض) نماز کے بعد یہ (ذکر) پڑھنا نہ چھوڑنا: (( رب أعِنِّي على ذِكرِك وشُكرِك وحُسنِ عبادتِك)) ’’اے میرے رب! اپنا ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘ [1] ٭ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے تھے: (( لا إلهَ إلّا اللهُ وحدَه لا شريكَ له له الملكُ وله الحمدُ وهو على كلِّ شيءٍ قديرٌ اللَّهمَّ لا مانعَ لِما أعطين ولا مُعطيَ لِما منَعْتَ ولا ينفَعُ ذا الجدِّ منك الجدُّ)) ’’اللہ کے سوا کوئی (سچا )معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے۔ اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یا اللہ ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کوئی عطا کرنے والا نہیں اور دولت مند کو اس کی دولت تیرے عذاب سے نہیں بچاسکتی۔‘‘ [2] ٭ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد یہ
[1] [صحیح] سنن النسائي، السھو، حدیث: 1304، وسنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1522، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 273/1 و 274,273/3 میں، امام ذہبی نے، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 751 میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 2345 میں اور امام نووی نے المجموع: 486/3 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 844، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 593۔