کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 194
سیدنا ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ سجدئہ تلاوت بھی چونکہ سجدئہ نماز ہی ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کی صورت میں صرف سجدے کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ امام ابوداود اور امام احمد رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔[1] نماز کے علاوہ سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر یا سلام کہنا مروی نہیں۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے میں جاتے وقت اللہ اکبر کہے اور فارغ ہو کر سلام بھی پھیرے لیکن یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں، لہٰذا نماز کے علاوہ سجدے کی صورت میں صرف تکبیر اولیٰ ہی لازم ہے۔ سجدئہ تلاوت قاری اور سامع (پڑھنے والے اور سننے والے) کے لیے سنت ہے۔ اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع کرتے ہوئے سجدہ کرنا چاہیے۔ جہری نمازوں میں ایسی سورتوں کی قراء ت بھی جائز ہے جس کی آخری یا درمیانی یا کوئی بھی آیت سجدے والی ہو۔ افضل اور اَولیٰ یہی ہے کہ سجدئہ تلاوت باوضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔ قرآن مجید میں کل 15 سجدے ہیں۔ احناف اور شوافع 14 سجدوں کے قائل ہیں۔ احناف سورئہ حج میں ایک سجدے کے قائل ہیں جبکہ سورئہ حج میں دو سجدوں کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، یہ احادیث اگرچہ سنداً ضعیف ہیں لیکن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے کچھ شواہد بھی ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں۔[2] نیز محقق عصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔[3] شوافع سورئہ ص ٓ کے سجدے کے قائل نہیں ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورئہ صٓ کا سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔[4]
[1] سنن أبي داود، سجود القرآن، حدیث: 1413، ومسند أحمد: 17/2۔ [2] تفسیر ابن کثیر، سورۃ الأنبیآء، آیت: 18۔ [3] تعلیقات المشکاۃ، الصلاۃ، حدیث: 1030۔ [4] صحیح البخاری، سجود القرآن، حدیث: 1069۔