کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 193
سجدہ تلاوت سجدئہ تلاوت مستحب ہے، لہٰذا اسے بلاوجہ ترک نہیں کرنا چاہیے، البتہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے۔ انسان اس کے ترک پر گناہ گار نہیں ہو گا کیونکہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورئہ نجم کی آیتِ سجدہ تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا۔[1] اسی طرح امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے منبر پر سورئہ نحل کی آیت سجدہ پڑھی اور منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر انہوں نے دوسرے جمعے اس آیت کی تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدئہ تلاوت فرض نہیں کیا۔ اِلا ّیہ کہ ہم خود سجدہ کرنا چاہیں اور آپ نے یہ عمل کبار صحابہ کی موجودگی میں کیا۔[2] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ سجدئہ تلاوت مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے، چاہے فجر کے بعد کا وقت ہی ہو، جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، کیونکہ اس سجدے کا ایک خاص سبب ہے اور ہر وہ نماز جس کا خاص سبب ہو اسے اوقاتِ ممانعت میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے، جیسے سجدئہ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔ سجدئہ تلاوت بھی سجدئہ نماز کی طرح ہے۔ افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے، سات اعضاء پر سجدہ کرے۔ سجدے میں جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں نیچے جھکتے وقت اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تب بھی اللہ اکبر کہتے۔[3]
[1] صحیح البخاري، سجود القرآن و سننھا، حدیث: 1072، 1073۔ [2] صحیح البخاري، سجود القرآن و سننھا، حدیث: 1077۔ [3] سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1150، 1151۔