کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 180
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھ کر دعا (تشہد، درود وغیرہ) پڑھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے۔‘‘ [1] معلوم ہوا کہ نمازی کو رخصت ہے، چاہے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے، چاہے رانوں پر۔ اب آپ قعدۂ اولیٰ میں تشہد پڑھیں۔ تشہد: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب تم نماز میں (قعدے کے لیے) بیٹھو تو یہ پڑھو: التَّحيّاتُ الطَّيِّباتُ الصَّلواتُ الزّاكياتُ للَّهِ، أشهدُ أن لا إلَه إلّا اللَّهُ وأنَّ محمَّدًا عبدُه ورسولُه، السَّلامُ عليكَ أيُّها النَّبيُّ ورحمةُ اللَّهِ وبرَكاتُه، السَّلامُ علينا وعلى عبادِ اللَّهِ الصّالحينَ أشهدُ أن لا إلَه إلّا اللَّهُ وحدَهُ لا شريكَ له، وأنَّ محمَّدًا عبدُه ورسولُه ’’(میری ساری) قولی، بدنی اور مالی عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اے نبی! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں اور ہم پر اور اللہ کے (دوسرے) نیک بندوں پر (بھی )سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچامعبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’ان کلمات [السَّلامُ علينا وعلى عبادِ اللَّهِ الصّالحينَ] کے پڑھنے سے ہر نیک بندے کو، خواہ وہ زمین پر ہو یا آسمان میں، نمازی کا سلام پہنچ جاتا ہے۔‘‘ [2] مسلمان مذکورہ الفاظِ تشہد نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام صحیح العقیدہ مسلمان اسے پڑھتے آرہے ہیں اور کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ آپ حاضر و ناظر ہیں، لہٰذا مذکورہ الفاظِ تشہد عليكَ أيُّها النَّبيُّ سے شرکیہ عقیدے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب یا حاضر ناظر ہونے) کی قطعاً تائید نہیں ہوتی۔ الحمدللّٰہ۔
[1] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 579۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 831، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 402۔