کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 178
اور کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں پاؤں کھڑے کر کے ایڑیوں پر بھی بیٹھتے تھے۔[1] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے سکون و اطمینان سے جلسے میں بیٹھتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسے میں نہ بیٹھنے والے کی نماز کی نفی فرمائی۔ لیکن افسوس کہ عام لوگوں کو جلسے کا علم ہی نہیں کہ یہ کیا ہے۔ جلسہ نماز میں فرض ہے اور اس میں طمانیت بھی فرض ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ سجدے کے برابر ہوتا تھا۔[2] کبھی کبھی آپ زیادہ (دیر تک )بیٹھتے یہاں تک کہ بعض لوگ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دوسرا سجدہ کرنا) بھول گئے۔[3] جلسے (دو سجدوں کے درمیان) کی مسنون دعائیں: 1. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان (یہ) پڑھتے: اللهمّ اغفرْ لي، وارحمْني، وعافني، واهدني، وارزقْني ’’اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت سے رکھ ، مجھے ہدایت دے اور مجھے روزی عطا کر۔‘‘[4] 2. سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ پڑھا کرتے تھے: ربِّ اغفِر لي ، ربِّ اغفِر لي ’’اے میرے رب! مجھے معاف فرما، اے میرے رب! مجھے معاف فرما۔‘‘ [5] دوسرا سجدہ: جب آپ پورے اطمینان سے جلسے سے فارغ ہوں تو پھر دوسرا سجدہ کریں اور پہلے سجدے کی طرح اس میں بھی بڑے خشوع و خضوع اور کامل اطمینان سے دعا یا دعائیں پڑھیں اور پھر اٹھیں۔
[1] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 536۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 820، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 471۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 821، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 473,472۔ [4] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 850، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 284۔ امام حاکم نے المستدرک: 262/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح جبکہ امام نووی نے المجموع: 437/3 میں جید کہا ہے۔ جامع ترمذی کی روایت میں ’’عَافِنِي‘‘ کی جگہ ’’وَاجْبُرنِيْ‘‘ کے الفاظ ہیں، تاہم اس روایت کی سند حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن یہ روایت صحیح مسلم کی روایت (2697) سے مل کر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ امام مکحول تابعی رحمہ اللہ دونوں سجدوں کے درمیان ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي‘‘ پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 534/2،حدیث: 8838، دوسرا نسخہ، 634/3، حدیث: 8922، واللفظ لہ، وسندہ صحیح) [5] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 874، وھو صحیح، وسنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 897، امام حاکم نے المستدرک: 271/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ سابقہ دعا سے یہ دعا پڑھنا بہتر ہے۔