کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 174
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی چٹائی پر نماز ادا کی جو زیادہ عرصہ استعمال میں رہنے کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھی۔[1] سجدہ، جنت میں داخلے کا باعث ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب آدم کا (مومن) بیٹا سجدے کی آیت پڑھتا ہے، پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا ایک طرف ہو کر کہتا ہے: ہائے میری ہلاکت، تباہی اور بربادی! آدم کے بیٹے کو سجدے کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا، لہٰذا اس کے لیے بہشت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا۔ میں نے نافرمانی کی، چنانچہ میرے لیے آگ ہے۔‘‘ [2] لمبا سجدہ کرنا: عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ رکوع کے برابر لمبا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کسی سبب کی بنا پر زیادہ لمبا کرتے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر یا عصر کی نماز میں سیدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھائے ہوئے تشریف لائے۔ آپ نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھے اور انھیں اپنے قدم مبارک کے قریب بٹھا لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی اور لمبا سجدہ کیا۔ جب آپ نے نماز ختم کی تو لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول ! آپ نے اس نماز میں ایک سجدہ بہت لمبا کیا یہاں تک کہ ہمیں خیال گزرا کہ کوئی واقعہ رونما ہو گیا ہے یا پھر وحی نازل ہو رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسی کوئی بات نہیں تھی، بس میرا بیٹا میری کمر پر سوار ہو گیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ سجدے سے جلدی سر اٹھا کر اسے پریشانی میں مبتلا کروں۔‘‘ [3] کثرتِ سجود، بہشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا باعث: ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات گزارتا تھا۔ آپ کے لیے وضو کا پانی اور آپ کی (دیگر )ضروریات (مسواک وغیرہ) کا خیال رکھتا تھا۔ (ایک رات خوش ہو کر)آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’کچھ دین و دنیا کی چیز مانگو (مجھ سے دعا کرا لو)۔‘‘میں نے کہا:بہشت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے علاوہ کوئی اور چیز۔‘‘ میں نے کہا: بس یہی! … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پس اپنی ذات کے لیے سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘ [4]
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 380، وصحیح مسلم، المساجد ومواضع الصلاۃ، حدیث: 658۔ [2] صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 81۔ [3] [صحیح] سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1142، وسندہ صحیح، امام حاکم نے المستدرک: 627,626/3 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [4] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 489۔