کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 165
پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ اطمینان سے رکوع (پورا) کرو، پھر (رکوع سے ) سر اٹھاؤ یہاں تک کہ (قومے میں) سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ (مکمل ) کرو، پھر اطمینان سے اپنا سر اٹھاؤ اور (جلسے میں) بیٹھ جاؤ، پھر (دوسرا) سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ (پورا )کرو، پھر اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کرو۔‘‘ [1] اس حدیث میں جس نمازی کا ذکر ہے وہ رکوع اور سجود بہت جلدی جلدی کرتا تھا، قومہ اور جلسہ اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر نہیں کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار اسے فرمایا کہ پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ارکان کی ادائیگی میں عدم اطمینان کو نماز کے باطل ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ درست نہ رکھے۔‘‘ [2] اللہ اکبر! کس قدر خوف کا مقام ہے، آہ! ہماری غیر مسنون نمازوں کا کیا حشر ہوگا۔ ہمیں پوری نماز کو تکبیر اولیٰ سے لے کر سلام پھیرنے تک مسنون طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے، اس وقت آپ رکوع میں تھے۔ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا اور اسی حالت میں چل کر صف میں پہنچے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تیرا شوق زیادہ کرے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘ [3] وضاحت: بعض لوگ اس حدیث سے یہ نکتہ نکالتے ہیں کہ اگر نمازی حالت رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہو تو وہ اسے رکعت شمار کرے گا کیونکہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے رکعت نہیں دہرائی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایسا کرنے کا حکم دیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے شخص کےلیے قیام ضروری ہے نہ قراء تِ فاتحہ۔ یہ مؤقف محل نظر ہے کیونکہ: 1.نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رکعت لوٹانے کا حکم دیا تھا یا نہیں۔ یا انھوں نے ازخود رکعت لوٹائی تھی یا نہیں۔ اس کے متعلق حدیث خاموش ہے۔ اس ضمن میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ محض
[1] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 793، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 397۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 855، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 265، امام ترمذی نے اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 501 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 783۔