کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 162
تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔4. جن محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے رفع الیدین کی احادیث اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ بیان کی ہیں، ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لیے نہیں، اپنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے حُبِّ رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔ اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی، یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ امام بیہقی (80,79/2) اور دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ایک راوی محمد بن جابر ضعیف ہے بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرہما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ ( یہ روایت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نہیں بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذاایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں۔ خلاصۂ بحث: رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث معناً یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین، یعنی رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں۔[1] رکوع کا بیان: رکوع میں جاتے ہوئے اللَّهُ أَكْبرُکہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں (یا کانوں) تک اٹھائیں جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: (( كانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إذا افْتَتَحَ الصَّلاةَ، وإذا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ)) ’’نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔‘‘ [2]
[1] جزء رفع الیدین: 40۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 735، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 390۔