کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 161
٭ بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اس سے اور اسی طرح رکوع اور سجودکے دوران بھی گر سکتے تھے، اس کے لیے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ٭ منافقین بھی کس قدر بیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انھیں بغلوں میں دبا لائے۔ ٭ یقینا جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران میں منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کیا سزا دی تھی؟ دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری وضاحت: یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ حالانکہ ایسی کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔ دیکھیے: نور العینین، ص: 155,154، نصب الرایۃ: 404/1۔ لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔ تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں: 1. دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں۔ 2. دونوں مقبول ہوں۔ 3. ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو۔ 4. دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔ مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے، نہ مردود احادیث سے مقبول احادیث کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اگر بفرض محال اس مسئلے میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تب بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ: 1. صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حیات طیبہ کے آخری حصے (9 اور10 ہجری) میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے۔2.صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے۔ 3. کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے