کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 159
وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جنھیں محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے۔ اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور نمازِ عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ’’ان لوگوں کو جو ان (نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ انھیں (دنیا میں) کوئی فتنہ و آزمائش یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘ [1] دوسری حدیث: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ انھوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔[2] تجزیہ: امام ابوداود رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: ((لیس ہو بصحیح علی ہذا اللفظ)) ’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘[3] امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ((لَم يثبُتْ حديثٌ ابن مسعود:] أنَّ النَّبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم لم يرفَع يديهِ إلّا في أوَّلِ مرَّةٍ)) ’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘[4]
[1] النور 63:24۔ [2] [ضعیف] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 748، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 257، اس روایت کی سند سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ [3] سنن أبي داود، الصلاۃ، بعد الحدیث: 748، سنن ابی داود کے بعض نسخوں میں یہ تبصرہ موجود نہیں لیکن مشکاۃ المصابیح، التمہید اور دوسری بہت سی کتابوں میں یہ تبصرہ موجود ہے، لہٰذا اس کا انکار صحیح نہیں۔ [4] اس قول کی سند عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔