کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 157
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 اور10 ہجری میں (دو مرتبہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، لہٰذاثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10 ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے، 11 ہجری میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، لہٰذاآخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ ٭ سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: تم سچ کہتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔[1] امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ (الذہلی) رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو شخص حدیثِ ابو حمید رضی اللہ عنہ سننے کے باوجود رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کی نماز ناقص ہے۔[2] ٭ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن لوگوں سے) فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟ یہ کہہ کر انھوں نے نماز پڑھی۔ جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمِع اللهُ لِمَن حمِده کہہ کر دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھائے، پھر فرمایا: اسی طرح کیا کرو۔[3] ٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔[4] وضاحت: بسا اوقات امام جہری نمازوں میں کوئی آیت سجدہ تلاوت کرتا ہے۔ اس صورت میں امام اور مقتدی رکوع سے پہلے سجدئہ تلاوت کرتے ہیں تو اس وقت قیام سے سجدے میں جاتے ہوئے رفع الیدین نہیں کیا
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 730، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 304، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 491 میں اورامام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [2] [صحیح] صحیح ابن خزیمۃ، الأذان والإقامۃ، حدیث: 589، وسندہ صحیح۔ [3] [صحیح] سنن الدارقطني، الصلاۃ: 292/1، حدیث: 16، وسندہ صحیح، حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں، التلخیص الحبیر: 219/1۔ [4] [حسن] سنن ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، حدیث: 868، وھو حدیث حسن ، حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ اس کے راوی ابوالزبیر نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ دیکھیے مسند السراج (قلمی، ص: 25، الف مطبوع، حدیث: 92 وسندہ حسن)