کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 153
میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔[1]
سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ ﴿ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا﴾پڑھتے ہوئے سنا۔[2]
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب سورۂ اعراف کے ساتھ پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کی کچھ مقدار پہلی رکعت میں اور بقیہ مقدار دوسری رکعت میں پڑھی۔[3]
نماز عشاء میں قراء ت:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں ﴿ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ پڑھتے ہوئے سنا اور میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوش آواز کسی کو نہیں پایا۔[4]
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھنی شروع کی۔ مقتدیوں میں سے ایک کھیتی باڑی کا کام کرنے والے شخص نے سلام پھیر دیا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! ہم لوگ اونٹوں والے ہیں، دن بھر محنت مشقت کرتے ہیں۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے پہلے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ہمارے پاس آئے اور انھوں نے عشاء میں سورۂ بقرہ شروع کر دی۔(میں دن بھر کا تھکا ماندہ تھا، مجھے لمبی قراء ت بوجھل معلوم ہوئی) ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’تو لوگوں کو نفرت دلاتا ہے اور فتنہ کھڑا کرتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ پھر فرمایا: ’’جب تم جماعت کراؤ تو سورئہ شمس ﴿ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا﴾ اور سورئہ لیل ﴿ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ اور سورئہ اعلیٰ ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴾ کی تلاوت کرو، اس لیے کہ تمھارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور ضرورت مند (بھی) نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘ [5]
اس حدیث سے عشاء کی نماز کی قراء ت بھی معلوم ہوئی اور ساتھ ہی اس حدیث نے نماز کی امامت کروانے والوں کو بھی متنبہ کر دیا ہے کہ وہ نماز پڑھاتے وقت مقتدیوں کا خاص طور پر خیال رکھیں اور خوب سمجھ لیں کہ نماز میں مقتدیوں کے حالات کے پیش نظر تخفیف کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
[1] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 765، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 463۔
[2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 763، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 462۔
[3] [صحیح] سنن النسائي، الافتتاح، حدیث: 992، وسندہ صحیح، امام نووی نے المجموع: 383/4 میں اسے حسن کہا ہے۔
[4] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 769، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 464۔
[5] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 705، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 465۔