کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 149
جان ہے! اگر اونٹ کے گھٹنے کی رسی کھول دی جائے تو وہ اتنی تیزی سے نہیں بھاگتا جتنی تیزی سے قرآن پاک حافظے سے نکل جاتا ہے۔‘‘ [1] رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی تو جہ سے اس نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین آواز کے ساتھ قرآن پڑھنا سنا ہے۔‘‘ [2] نماز کی مسنون قراء ت: منفرد نمازی سورۂ فاتحہ کے بعد جہاں سے جتنا چاہے قرآن مجید پڑھ سکتا ہے، البتہ امام کو نماز پڑھاتے وقت مقتدیوں کے احوال و کوائف کے پیش نظر ضرور اختصار سے کام لینا چاہیے۔ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد اگرچہ ہم جہاں سے چاہیں قرآن پڑھ سکتے ہیں لیکن یہاں ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا حال بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون کون سی سورت کس کس نماز میں پڑھتے تھے۔ سورۂ اخلاص کی اہمیت: ایک انصاری مسجد قباء میں امامت کراتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنے سے پہلے سورۂ اخلاص﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴾ تلاوت فرماتے۔ ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ مقتدیوں نے امام سے کہا کہ آپ پہلے ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴾کی تلاوت کرتے ہیں، پھر بعد میں دوسری سورت ملاتے ہیں، کیا ایک سورت تلاوت کے لیے کافی نہیں؟ یا صرف یہی سورت پڑھا کریں اور اگر﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴾کی تلاوت کافی نہیں تو اسے چھوڑ دیں، کسی دوسری سورت کی تلاوت کیا کریں۔ امام نے جواب دیا کہ میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴾کی تلاوت نہیں چھوڑ سکتا۔ مقتدیوں نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام سے پوچھا: ’’تم مقتدیوں کی بات کیوں نہیں مانتے، اس سورت کو ہر رکعت میں التزام سے کیوں پڑھتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: مجھے اس سورت سے محبت ہے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سورت کے ساتھ تیری محبت تجھے جنت میں داخل کرے گی۔‘‘ [3] مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورتوں کو ترتیب سے تلاوت کرنا ضروری نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔ ایک صحابی نے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرا ایک پڑوسی رات کے قیام میں (سورۂ فاتحہ کے بعد) صرف
[1] [صحیح] سنن الدارمي، فضائل القرآن، حدیث: 3351 وسندہ صحیح، 3352، ومسند أحمد: 150,146/4، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 1788 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [2] صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5024,5023، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 792۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، قبل الحدیث: 774م۔