کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 148
پڑھتے، پھر ٹھہر کر ﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾ پڑھتے، پھر ٹھہر کر ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ پڑھتے تھے۔‘‘ [1]
مذکورہ حدیث کثرت طرق سے مروی ہے۔ اس مسئلے میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ا ئمۂ سلف صالحین کی ایک جماعت ہر آیت پر توقف کرتی تھی۔ اگر مابعد کی آیت معنی کے لحاظ سے پہلی آیت کے ساتھ متعلق ہوتی، پھر بھی وہ توقف کر کے پڑھتے تھے۔ تلاوت قرآن کا مسنون طریقہ یہی ہے لیکن آج کل عام قاری حضرات اس طرح تلاوت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے۔ اسے دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی سرگوشی کر رہا ہے اور تم حالت نماز میں بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے ساتھیوں کو اضطراب میں نہ ڈالو۔‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے۔ بلکہ ایک ایک حرف الگ الگ پڑھتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ چھوٹی سورت، لمبی سورت سے بھی زیادہ لمبی ہو گئی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’حافظ قرآن کو کہا جائے گا:تم قرآن پڑھتے جاؤ اور (جنت کی سیڑھیاں) چڑھتے جاؤ۔ جس طرح تم دنیا میں ترتیل اور آہستگی سے پڑھا کرتے تھے، اسی طرح پڑھتے چلو۔ تمھاری منزل وہاں ہے جہاں تم آخری آیت پڑھو گے۔‘‘ [3]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو اچھی آواز سے پڑھنے کا حکم دیتے تھے، اس لیے کہ دلکش آواز کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے میں مزید حسن پیدا ہوتا ہے۔[4]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب کا علم حاصل کرو۔ اسے ذہن میں محفوظ کرو اور اسے اچھی آواز سے پڑھو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری
[1] [صحیح] مسند أحمد: 288/6، حدیث: 26470، وسندہ صحیح۔
[2] [صحیح] الموطأ للإمام مالک، الصلاۃ، حدیث: 181 (بیاضی سے مروی ہے)، وسنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1332، وسندہ صحیح، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1162 میں اسے صحیح کہا ہے۔
[3] [حسن] سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1464، وسندہ حسن، وجامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث: 2914، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 1790 میں اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[4] [صحیح] سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1468، وھو حدیث صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 660 میں اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1556,1551میں اسے صحیح کہا ہے۔