کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 145
تو فرمایا: ’’شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ ہم نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورئہ فاتحہ کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔‘‘ [1] ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں (اپنے دل میں) کہتا تھاکہ قرآن پڑھنا مجھ پر دشوار کیوں (ہو رہا) ہے؟ جب میں (جہری نماز میں) اونچی آواز سے قراء ت کروں تو تم قرآن میں سے سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو۔‘‘ [2] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی، وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (کیا پھر بھی پڑھیں؟) انھوں نے کہا: (ہاں!) (اس وقت) اسے اپنے دل میں پڑھ لو۔[3] سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ان کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ’’کیا تم اپنی نماز میں امام کی قراء ت کے دوران میں پڑھتے ہو؟‘‘ سب خاموش رہے۔ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہی بات پوچھی تو انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو، تم صرف سورۂ فاتحہ دل میں پڑھ لیا کرو۔‘‘ [4] ان احادیث سے ثابت ہوا کہ مقتدیوں کو امام کے پیچھے (چاہے وہ بلند آواز سے قراء ت کرے یا آہستہ
[1] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 823، وسندہ حسن، (ابن إسحاق صرح بالسماع ومکحول بريئٌ من التدلیس وللحدیث شواہد وھو بھا صحیح، دیکھیے میری کتاب الکواکب الدریۃ في وجوب الفاتحۃ خلف الإمام في الجھریۃ) وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 311، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1581میں، اور امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 461,460 میں اسے صحیح قراردیا ہے جبکہ امام بیہقی نے: 164/2، امام ترمذی نے اور امام دارقطنی نے: 318/1 میں اسے حسن کہا ہے۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 824، وسندہ صحیح، امام دارقطنی: 320/1 نے اسے حسن اور امام بیہقی: 166/2 نے صحیح کہا ہے۔ اس کے راوی نافع بن محمود ثقہ ہیں، مجہول نہیں ہیں۔ دیکھیے سنن أبي داود، بتحقیقي: 824۔ [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 395۔ [4] [صحیح] مسند أحمد: 410/5، وسندہ صحیح، والسنن الکبرٰی للبیھقي: 166/2 امام ابن حبان نے: 164/3، حدیث: 1849میں اسے صحیح کہا ہے اور امام بیہقی نے جید قرار دیا ہے، نیز اس کے متعلق مجمع الزوائد: 110/2 میں امام ہیثمی فرماتے ہیں: اس کے سب راوی ثقہ ہیں اور حافظ ابن حجر نے بھی التلخیص الحبیر: 231/1 میں اسے حسن کہا ہے۔