کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 140
ہوگا، لہٰذا امام کے سامنے سترے کا ہونا ضروری ہے اور وہی سترہ مقتدیوں کےلیے کافی ہوگا۔[1] تکبیر اولیٰ: ٭ قبلے کی جانب منہ کر کےاللَّهُ أَكْبرُکہتے ہوئے رفع الیدین کریں، یعنی دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((رَأَيْتُ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ في الصَّلاةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حتّى يَجْعَلَهُما حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ)) ’’میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے نماز کے آغاز میں اللہ اکبر کہا اور تکبیر کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔‘‘ [2] وضاحت: نماز کے آغاز میں اللہ اکبر کو تکبیر اولیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ نماز کی سب سے پہلی تکبیر ہے اور اس سے نماز شروع ہوتی ہے اور اسے تکبیر تحریمہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ ہی بہت سی چیزیں نمازی پر حرام ہو جاتی ہیں۔ ٭ ہاتھ اٹھاتے وقت انگلیاں (نارمل طریقے پر) کھلی رکھیں۔ انگلیوں کے درمیان زیادہ فاصلہ کریں، نہ انگلیاں ملائیں۔[3] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔[4] ٭ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی کبھی) ہاتھ کانوں تک بلند فرماتے تھے۔ [5] شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رفع یدین کرتے وقت ہاتھوں سے کانوں کو چھونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان کا چھونا بدعت ہے یا وسوسہ۔ مسنون طریقہ ہتھیلیاں کندھوں یا کانوں تک اٹھانا ہے۔ ہاتھ اٹھانے کے سلسلے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ ایسی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں جس میں یہ تفریق ہو کہ مرد کانوں تک اور عورتیں کندھوں تک ہاتھ بلند کریں۔
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 493۔ [2] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 738۔ [3] [حسن] المستدرک للحاکم، الصلاۃ، حدیث: 856، وسندہ حسن، امام حاکم نے المستدرک: 234/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے، وسنن أبي داود، حدیث: 753، وجامع الترمذي، حدیث: 240، وحسنہ، وسندہ حسن۔ [4] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 735، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 390۔ [5] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 391-(25)۔