کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 138
٭ لغت کے اس لیے خلاف ہے کہ نیت عربی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کے معنی ہیں: ’’ارادہ‘‘ اور ارادہ دل سے کیا جاتا ہے زبان سے نہیں، بالکل اسی طرح جیسے دیکھا آنکھ سے جاتا ہے پاؤں سے نہیں۔ دوسرے لفظوں میں نیت دل سے کی جاتی ہے، زبان سے پڑھی نہیں جاتی۔ بعض لوگ روزہ رکھنے کی دعا، حج کے تلبیہ اور نکاح میں ایجاب و قبول سے نماز والی مروجہ نیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ روزہ رکھنے کی دعا والی حدیث ضعیف ہے، لہٰذاحجت نہیں ہے۔ حج کا تلبیہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کہنا ضروری ہے اور اس کی حیثیت نماز کی تکبیر تحریمہ جیسی ہے، تکبیر تحریمہ نماز کے شروع میں کہی جاتی ہے، اسی طرح تلبیۂ حج، مناسکِ حج کے شروع میں پڑھا جاتا ہے۔ مگر نماز والی مروجہ نیت کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی، رہ گیا نکاح میں ایجاب و قبول کا مسئلہ! چونکہ نکاح کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے اور حقوق العباد میں محض نیت سے نہیں بلکہ اقرار واعلان، تحریر اور گواہی سے معاملات طے پاتے ہیں جب کہ نماز میں بندہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے جو تمام نیتیں خوب جاننے والا ہے، پھر وہاں نیت پڑھنے کا کیا جواز ہے؟ لہٰذا اہل اسلام سے گزارش ہے کہ وہ اس بدعت سے نجات پائیں اور سنت کے مطابق نماز شروع کر کے حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت دیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الفاظ سے نیت کرنا علمائے مسلمین میں سے کسی کے نزدیک بھی مشروع نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے خلفائے راشدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے، پھر اس امت کے سلف اور ائمہ میں سے کسی نے بھی الفاظ سے نیت نہیں کی۔ عبادات میں، مثلاً: وضو، غسل، نماز، روزہ اور زکاۃ وغیرہ میں جو نیت واجب ہے، بالاتفاق تمام ائمۂ مسلمین کے نزدیک اس کی جگہ دل ہے۔[1] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اسے بدعت کہتے ہیں۔ قیام: سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلِّ قائمًا، فإن لم تستَطِع فقاعدًا، فإن لم تستَطِع فعلى جَنبٍ ’’کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر، اگر بیٹھ کر ادا کرنے کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر
[1] الفتاوٰی الکبرٰی: 214,213/1۔