کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 137
جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر شہرت کی غرض سے ایک سخاوت کرنے والے مالدار کا بھی یہی حشر ہوگا۔‘‘ [1] تنبیہ: اس سے معلوم ہوا کہ دلوں کے راز صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہر نیک و بد کا اخروی انجام ہے۔ وضو کرتے وقت دل میں یہ نیت کریں کہ اللہ کے حضور نماز میں حاضر ہونے کے لیے طہارت (وضو) کرنے لگا ہوں اور پھر جب نماز پڑھنے لگیں تو دل میں یہ قصد اور نیت کریں کہ صرف اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔ نیت چونکہ دل سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور نیت کا زبان سے ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ وضاحت: اپنے دل میں کسی کام کی نیت کرنا اور ضرورت کے وقت کسی کو اپنی نیت سے آگاہ کرنا ایک جائز بات ہے مگر نماز سے پہلے نیت پڑھنا عقل، نقل اور لغت تینوں کے خلاف ہے: ٭ عقل کے خلاف اس لیے ہے کہ بے شمار ایسے کام ہیں جنھیں شروع کرتے وقت ہم زبان سے نیت نہیں پڑھتے کیونکہ ہمارے دل میں انھیں کرنے کی نیت اور ارادہ موجود ہوتا ہے، مثلاً: وضو کرنے لگتے ہیں تو کبھی نہیں پڑھتے’’وضو کرنے لگا ہوں‘‘ وغیرہ۔ تو کیا نماز ہی ایک ایسا کام ہے جس کے آغاز میں اس کی نیت پڑھنا ضروری ہو گیا ہے؟ نماز کی نیت تو اسی وقت ہو جاتی ہے جب آدمی اذان سن کر مسجد کی طرف چل پڑتا ہے اور اسی نیت کی وجہ سے اسے ہر قدم پر نیکیاں ملتی ہیں، لہٰذا نماز شروع کرتے وقت جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ نیت نہیں، بدعت ہے۔ ٭ نقل کے خلاف اس لیے ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم باقاعدگی کے ساتھ نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ اگر وہ اپنی نمازوں سے پہلے’’نیت‘‘ پڑھنا چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے، ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ان میں سے کبھی کسی نے نماز سے پہلے مروجہ نیت نہیں پڑھی۔ اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنی نمازوں کا آغاز تکبیر تحریمہ، یعنی اللَّهُ أَكْبرُ سے کرتے رہے۔ ثابت ہوا کہ نماز سے پہلے نیت نہ پڑھنا سنت ہے۔
[1] صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 1905۔