کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 127
جائے تو اس کی نماز ہوجائے گی اور یہی طریقہ زیادہ بہتر ہے۔ سنن دارمی کی جس روایت میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو نماز لوٹانے کا حکم دیا تھا، وہ اس وجہ سے تھا کہ وہ اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود شامل نہیں ہوا تھا۔[1] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو اور نمازی اکیلے صف میں کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ واللّٰہ أعلم۔ یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر محققین کا ہے۔ دیکھیے: إرواء الغلیل: 329/وفتاوی الدین الخالص: 244/ صف بندی میں مراتب کا لحاظ رکھنا: سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے ہاتھ ہمارے کندھوں پر رکھتے اور فرماتے: ’’برابر ہو جاؤ اور جدا جدا کھڑے نہ ہو کہ اس سے تمھارے دل باہم مختلف ہو جائیں۔ (اور) صف میں میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو عقل مند و دانشمندہیں، ان کے بعد وہ جو (دانش مندی میں) ان کے قریب ہوں، پھر وہ جو اُن کے قریب ہوں۔‘‘ [2] سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں نے صفیں بنائیں، پھر بچوں نے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ پھر فرمایا: ’’میری امت کی نماز اسی طرح ہے۔‘‘ [3] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ میں نے اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی اور میری والدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے صف میں اکیلی ہی کھڑی ہو گئی۔[4] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب مردوں کی صف میں جگہ ہوتو نابالغ بچے بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔[5] اور اگر ایک خاتون نماز میں شامل ہو جائے تو وہ مردوں سے الگ اکیلی صف میں کھڑی ہوگی۔ امامت کا بیان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] سنن الدارمي: 211/1، حدیث: 1289۔ [2] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 432۔ [3] [حسن] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 677، اس کی سند حسن ہے۔ اسے ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج میں حسن قرار دیا ہے، حدیث: 548۔ [4] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 727۔ وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 658۔ [5] دیکھیے: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: 20/8، وتمام المنۃ للألباني، ص: 284۔