کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 125
معلوم نہ تھا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کدھر اور کیوں جا رہے ہیں اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ ہوا کہ عائشہ بھی میرے پیچھے پیچھے آرہی ہیں۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہو کر ایک جانب سے دوسری جانب تک چلتے، ہمارے سینوں اور کندھوں کو برابر کرتے اور فرماتے تھے: ’’آگے پیچھے مت ہونا (ورنہ) تمھارے دل بھی مختلف ہو جائیں گے۔‘‘ اور فرماتے تھے: ’’تحقیق اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے (رحمت کی) دعا کرتے ہیں۔‘‘ [1] سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں برابر کرتے تھے۔ جب صفیں برابر ہو جاتیں تو (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُ أَكْبرُ کہہ کر نماز شروع کرتے۔[2] سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صفیں درست کرو، کندھے برابر کرو، (صفوں کے اندر) درمیان میں فاصلہ نہ رہنے دو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ، صفوں کے اندر شیطان کے لیے خلا نہ چھوڑو۔ اور جو شخص صف ملائے گا، اللہ بھی اسے (اپنی رحمت سے) ملائے گا اور جو اسے کاٹے گا، اللہ بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دے گا۔‘‘ [3] اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر صف درست کرنے کے لیے کوئی تمھیں آگے یا پیچھے کرے تو بڑی نرمی اور محبت سے آگے یا پیچھے ہو جاؤ۔ اگر صف سے کوئی نکل کر چلا جائے تو اس کی جگہ لے کر صف ملاؤ، اللہ تم پر رحمت کرے گا۔ صف کے اندر (جان بوجھ کر) ایک دوسرے سے دور دور کھڑے ہونا صف کاٹنا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔ ( العیاذ باللہ ) صفوں کی ترتیب: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(پہلے) پہلی صف کو پورا
[1] [صحیح] سنن أبي داود، أبواب الصفوف، حدیث: 664، وسندہ صحیح، والمستدرک للحاکم، فضائل القرآن، ذکر فضائل سور و آي متفرقۃ، حدیث: 2128,2112,2105,2099، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 386 میں اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1551 میں اسے صحیح جبکہ امام نووی نے المجموع: 226/4 میں حسن کہا ہے۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، أبواب الصفوف، حدیث: 665، وسندہ صحیح۔ [3] [حسن] سنن أبي داود، أبواب الصفوف، حدیث: 666، وسندہ حسن، امام حاکم اور امام ذہبی نے المستدرک: 213/1، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1549 میں، اور امام نووی نے المجموع: 227/4 میں اسے صحیح کہا ہے۔