کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 123
’’اپنی صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز کا قائم کرنا ہے۔‘‘ [1] قرآن حکیم میں ہے: ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ ’ ’اور نماز قائم کرو۔‘‘ [2] یعنی ارکان اور سنن کا اہتمام کرتے ہوئے اور ان کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’صفوں کو سیدھا کرنا بھی نماز قائم کرنے میں شامل ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ صفوں کا ٹیڑھا ہونا نقصان کا موجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صفوں کو سیدھا کرو کیونکہ صف کو سیدھا کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔‘‘ [3] سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو (اس طرح) برابر کرتے گویا ان کے ساتھ تیروں کو برابر کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ ہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفوں کا سیدھا کرنا سمجھ لیا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جماعت کے لیے) کھڑے ہوئے اورتکبیر کہنے کو تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے تو فرمایا: ’’اپنی صفوں کو برابر اور سیدھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں اختلاف ڈال دے گا۔‘‘ [4] مذکورہ حدیث کی رو سے صفوں کا سیدھا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اقامت ہو جانے کے بعد جب صفیں سیدھی، درست اور برابر ہو جائیں تو پھر امام کو تکبیر اولیٰ کہنی چاہیے۔ خبردار! صفیں ٹیڑھی نہ ہوں کہ صفوں کا ٹیڑھا پن باہمی پھوٹ، دلوں کے اختلاف اور باطنی کدورت کا موجب ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو (کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملاؤ) اور صفوں کو قریب قریب بناؤ (دو صفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ چھوڑو) اور گردنیں برابر(ایک دوسرے کی سیدھ میں) رکھو۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ خالی جگہوں میں تمھاری صفوں میں گھس آتا ہے جیسے وہ بکری کا بچہ ہو۔‘‘ [5]
[1] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 723، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 433۔ [2] البقرۃ 43:2۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 722، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 435۔ [4] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 436۔ [5] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 667، وسندہ صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 387 میں اور امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1545 میں اسے صحیح کہا ہے۔