کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 117
قبلے کے بارے میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مشرق و مغرب کے درمیان والی تمام سمت قبلہ ہے۔‘‘ [1] وضاحت: چونکہ بیت اللہ سے دور کے لوگوں کے لیے ٹھیک خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنا مشکل تھا، اس لیے بیت اللہ کے دائیں بائیں ساری جہت کو قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ یہ حکم اہل مدینہ اور ان لوگوں کے لیے ہے جن کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان، یعنی شمال یا جنوب والی سمت میں ہے۔ رہے برصغیر پاک و ہند کے لوگ یا وہ تمام لوگ جن کا قبلہ مغرب یا مشرق کی طرف ہے تو ان کے لیے شمال و جنوب کے درمیان والی تمام سمت قبلہ ہے۔ نمازی کے قبلے کی جانب قبر ہونے کی صورت میں لازم ہے کہ وہاں سے ہٹ کر نماز ادا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قبروں کی جانب منہ کر کے نماز ادا نہ کرو، نہ قبروں پربیٹھو۔‘‘ [2] سترے کا بیان: یہاں سترے سے مراد وہ چیز ہے جسے نمازی اپنے آگے کھڑا کر کے نماز پڑھتا ہے تاکہ اس کے آگے سے گزرنے والا (سترے کی دوسری طرف سے گزر جائے اور) گناہ گار نہ ہو۔ لاٹھی، برچھی، لکڑی، دیوار، ستون اور درخت وغیرہ کو سترہ بنایا جاسکتا ہے اور امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إذا وضَعَ أحَدُكُمْ بيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ، ولا يُبالِ مَن مَرَّ وراءَ ذلكَ)) ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر (کوئی چیز) رکھ لے تو نماز جاری رکھے اور جو کوئی اس کے باہر والی طرف سے گزرے اس کی پروا نہ کرے۔‘‘ [3] عطاء بن ابی رباح (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پالان کے پچھلے حصے کی لکڑی ایک ہاتھ یا اس سے کچھ زیادہ (لمبی) ہوتی ہے۔[4]
[1] [حسن] جامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 344، وسندہ حسن، اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ [2] صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 972۔ [3] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 499۔ [4] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 686، وسندہ صحیح، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 807 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔