کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 112
أشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إلّا اللَّهُ وحْدَهُ لا شَرِيكَ له، وأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورَسولُهُ، رَضِيتُ باللَّهِ رَبًّا وبِمُحَمَّدٍ رَسولًا، وبالإسْلامِ دِينًا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تحقیق محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ کے رب ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ [1] اذان مغرب کے بعد دعا کی حقیقت: سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تعلیم دی کہ مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھا کروں: اللَّهُمَّ! ان هذا إقبالُ لَيلِكَ، وإدبارُ نَهارِكَ، وأصواتُ دُعاتِكَ، فاغفِرْ لي اِس دعا کو امام نووی، امام ترمذی اور شیخ البانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔[2] اذان و اقامت کے دیگر مسائل: ٭ ہر نماز کے وقت اذان دینا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے۔‘‘ [3] ٭ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے کہ وہ اذان کہتے ہوئے کانوں میں انگلیاں ڈالتے تھے۔[4] ٭ حَيَّ على الصَّلاةِ کہتے وقت منہ دائیں طرف پھیریں اور حَيَّ على الفلاحِ کہتے وقت بائیں طرف۔[5] ٭ سیدنا عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مطالبے پر مجھے اپنی قوم کا امام مقرر کر دیا اور فرمایا: واتخذْ مؤذنًا، لا يأخذُ على أذانِه أجرًا ’’مؤذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر مزدوری نہ لے۔‘‘ [6]
[1] صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 386، وصحیح ابن خزیمۃ: 220/1، حدیث: 422، والثمر المستطاب في فقہ السنۃ والکتاب للألباني: 182/1۔ [2] ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 85، وجامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3589، والقول المقبول، حدیث: 304۔ [3] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 628، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 674۔ [4] [صحیح] صحیح البخاري، الأذان، قبل حدیث: 634 تعلیقًا، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 197، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ رواہ شعبۃ وجماعۃ عن عون بہ۔ [5] صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 634، وصحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 503۔ [6] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 531، وسندہ صحیح، وجامع الترمذي، الصلاۃ، حدیث: 209، امام ترمذی نے، امام حاکم نے المستدرک: 201-199/1 میں اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔