کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 111
الفاظ بڑھا رکھے ہیں اور وہ الفاظ آج کل کی مروجہ کتبِ نماز میں بھی موجود ہیں۔ دعائے مسنون کے لفظ والفَضِيلَةَ کے بعد والدرجةَ الرَّفيعةَ کا اضافہ کرتے ہیں اور آگے وعَدْتَهُ کے بعد ((وارزقنا شفاعتَہُ يومَ القيامةِ)) کا اضافہ کرتے ہے اور پھر مسنون دعا کے آخر میں يا أرْحَمَ الرّاحِمينَ کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعادَ یہ الفاظ سنن بیہقی کی روایت کے ہیں لیکن محقق العصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے انھیں شاذ قرار دیا ہے۔ مذکورہ الفاظ کی مزید تحقیق کے لیے ارواء الغلیل اور القول المقبول کا مطالعہ کیجیے۔[1] ذرا غور فرمایئے کیا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دعا میں یہ کمی رہ گئی تھی جو بعد کے لوگوں نے اپنے اضافے سے پوری کی ہے؟ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پاک میں کمی بیشی کرنے کے تصور سے بھی کانپ اٹھنا چاہیے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو باوضو ہو کر سونے سے پہلے پڑھنے کے لیے ایک دعا بتائی۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے پڑھ کر سنائی تو انھوں نے بنَبِيِّكَ کی جگہ برسولک یعنی نبی کی جگہ رسول کہا۔ تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے بتائے ہوئے لفظ ’’نبی‘‘ کو ’’رسول‘‘ سے مت بدلو بلکہ بنَبِيِّكَ ہی کہو۔[2] وضاحت: اس سے معلوم ہوا کہ مسنون دعائیں اور ورد، توقیفی (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ہیں اور ان کی حیثیت عبادت کی ہے، لہٰذا ان میں کمی بیشی جائز نہیں اور کسی قرینے یا دلیل کے بغیر متکلم کے صیغے کو جمع کے صیغے سے بدلنا صحیح نہیں، اس کے بجائے بہتر یہ ہے کہ متکلم کا صیغہ ہی بولا جائے، البتہ نیت میں یہ رکھا جائے کہ میں یہی دعا فلاں فلاں کے حق میں بھی کر رہا ہوں، نیز مسنون دعاؤں اور اوراد کے ہوتے ہوئے خود ساختہ عربی دعاؤں، وردوں، وظیفوں اور درودوں کا التزام کرنا ٹھیک نہیں ہے اور اگر ان کے کچھ الفاظ شرک، کفر یا بدعت پر مشتمل ہوں تو اس صورت میں ان کا پڑھنا قطعی طور پر حرام ہو جاتا ہے لیکن افسوس کہ جاہل لوگ روزانہ علی الصبح پابندی کے ساتھ ان خود ساختہ چیزوں کی’’تلاوت‘‘ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔ ٭ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مؤذن کے شہادتین کے کلمات سن کر یہ دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ دعا یہ ہے:
[1] إرواء الغلیل: 261,260/1، والقول المقبول في شرح و تعلیق صلاۃ الرسول، ص: 302۔ [2] صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 247، و صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 2710۔