کتاب: نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 100
نے فرمایا: ’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھو، پھر اگر تم اس نماز (کی جماعت) کو ان کے ساتھ بھی پالو تو (ان کے ساتھ) دوبارہ نماز پڑھ لو، بے شک یہ نماز تمھارے لیے نفل ہوگی۔‘‘ [1] سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا تم پر میرے بعد ایسے امام ہوں گے جنھیں بعض چیزیں بروقت نماز پڑھنے سے مشغول رکھیں گی یہاں تک کہ اس کا وقت جاتا رہے گا، لہٰذا تم نماز وقت ہی پر پڑھنا (اگرچہ تنہا پڑھنی پڑے)۔‘‘پھر ایک شخص بولا: اللہ کے رسول! پھر کیا میں ان کے ساتھ بھی نماز پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں،اگر تم چاہو۔‘‘ [2] نماز کے ممنوعہ اوقات: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح (کی نماز) کے بعد (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج ظاہر ہو جائے (کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے) اور (نماز) عصر کے بعد بھی (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے۔[3] ٹھیک دوپہر، یعنی جب سورج آسمان کے عین وسط میں ہو، اس وقت بھی نماز پڑھنا منع ہے۔[4] سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، اِلّا یہ کہ سورج بلند ہو۔[5] اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عصر کے بعد نماز کی مطلق ممانعت نہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا: ’’بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلۂ عبدالقیس کے لوگ (احکام دین سیکھنے کے لیے) آئے تھے۔ (میں ان کے ساتھ مصروف رہا۔ یوں) انھوں نے مجھے ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے باز رکھا، یہ وہی دو رکعتیں تھیں( جو میں نے عصر کے بعد پڑھی ہیں)۔‘‘ [6]
[1] صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 648۔ [2] [صحیح] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 433، وھو حدیث صحیح۔ [3] صحیح البخاري، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 581، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 828-825۔ [4] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 831۔ [5] [صحیح] سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1274، وسندہ صحیح، وسنن النسائي، المواقیت، حدیث: 574، امام ابن خزیمہ نے حدیث: 1285,1284میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث: 621 میں، امام ابن حزم نے المحلّٰی: 31/3 میں اور حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر: 185/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔ [6] صحیح البخاري، السھو، حدیث: 1233، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 834۔