کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 98
بعض قطب حضرات کو اختیارات دے رکھے ہیں ۔ یہ اتنا گندہ عقیدہ ہے کہ مشرکین مکہ میں بھی یہ نجاست نہ تھی۔ حتی کہ جب اللہ نے ان سے پوچھا: ﴿ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللَّہُ ﴾ [یونس:۳۱] ’’ اور کائنات کو کون چلاتا ہے؟ وہ جھٹ سے بولیں گے: اللہ! ‘‘ میں نے ایک صوفی کی کتاب ’’ الکافی فی الرد علی الوھابی ‘‘ کا مطالعہ کیا۔ لکھتا ہے: اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو کُنْ بول دیں تو ہر کام ہوجاتا ہے!! جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ان کی تکذیب یوں کرتا ہے: ﴿ إِنَّمَا اَمْرُہُ إِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ o﴾ [یٰسٓ:۸۲] ’’ صرف اس اللہ ربّ العالمین کا معاملہ ایسا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو کُن کہہ دیتا ہے بس وہ کام ہوجاتا ہے۔ ‘‘ اور اللہ کا فرمان ہے: ﴿ اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ﴾ [الاعراف:۵۴] ’’ خبردار! اس اللہ عزوجل کی مخلوق ہے اور اسی کا حکم ۔ ‘‘ (۲) عبادت اور دُعا میں شرک کی نفی: عبادت اور دُعا میں شرک یہ ہے کہ انبیاء اور نیک لوگوں کی اللہ کے ساتھ ساتھ عبادت کی جائے اور ان کو پکارا جائے۔ مثلاً ان سے مدد طلب کرنا اور آسانی یا مشکل کے وقت ان کو پکارنا۔ افسوس ہے کہ یہ چیز اس اُمت میں بہت رواج پاگئی ہے۔ اور اس کے زیادہ ذمہ دار وہ علماء لوگ ہیں جو اس شرک کو وسیلہ کے نام سے روا سمجھتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں ۔ وہ اس کا نام تبدیل کرلیتے ہیں ، کیوں کہ وسیلہ تو یہ ہے کہ کسی کے واسطہ کے ساتھ اللہ سے مدد مانگنا۔ اور شرک یہ ہے کہ غیراللہ سے مانگنا۔ جیسے یوں کہنا: یا رسول اللہ مدد! یاغوث مدد! یا بدوی مدد وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ الفاظ غیراللہ کی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ دُعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: