کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 83
آیت ہے۔ اور جب حدیث پڑھتے ہیں : (( وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ۔)) … ’’ جب بھی مدد طلب کرو، اللہ ہی سے کرو۔ ‘‘ تو کہتے ہیں : یہ وہابی حدیث ہے۔ اور جب کوئی نمازی سینے پر ہاتھ باندھ لے یا ساری تشہد میں انگلی ہلاتا رہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے تو لوگ اس کو بھی وہابی کہنے لگتے ہیں ۔ وہابی کا لفظ گویا اب مؤحد آدمی کے لیے ایک علامت کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے جو صرف ایک اللہ کو پکارتا ہو، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتا ہو۔ جبکہ وہابی الوہاب کی طرف نسبت ہے جو کہ اللہ کے پیارے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ جس رب نے وہابی کو توحید کی نعمت عنایت فرمائی تو یہ ایک اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ توحید کے داعیان کرام کو چاہیے کہ وہ صبر کا مظاہرہ کریں اور اس سلسلہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے رب نے فرمایا: ﴿ وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیلًا o﴾ [المزمل:۱۰] ’’ اے نبی! ان کی باتوں پر صبر کریں اور ان کو بطریقِ احسن چھوڑدیں ۔ ‘‘ اور فرمایا: ﴿فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ آثِمًا اَوْ کَفُورًا o﴾ [الإنسان:۲۴] ’’ اللہ کے حکم پر صبر اور ان میں سے کسی نافرمان اور ناشکرے کی بات مت مانو۔ ‘‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ توحید کی دعوت قبول کریں اور داعیان توحید کی بات مان لیں ۔ کیونکہ توحید تمام انبیاء کی دعوت ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی دعوت ہے۔ تو جس کو ان سے محبت ہے اسی کو توحید سے محبت ہے اور جس کو توحید سے بغض ہے، دراصل اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بغض ہے۔