کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 82
تو وہ ان کو آپ کی صدق و امانت ایک دم بھول گئی اور کہنے لگے: یہ تو جھوٹا اور جادوگر ہے۔ قرآنِ حکیم اُن کا ردّ پیش کرتے ہوئے بیان کرتا ہے: ﴿ وَعَجِبُوا اَنْ جَائَ ہُمْ مُنْذِرٌ مِّنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُونَ ہَذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ o اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہًا وَّاحِدًا إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ o﴾ [ص:۴۔۵] ’’ ان کو حیرت ہوئی کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور کافروں نے تو کہہ دیا کہ یہ جادوگر جھوٹا ہے۔ کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک ہی کردیا ہے، یہ تو بالکل ہی تعجب کی بات ہے۔ ‘‘ دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے: ﴿ کَذَلِکَ مَا اَتَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُونٌ o اَتَوَاصَوْا بِہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ o﴾ [الذاریات:۵۲۔۵۳] ’’ اسی طرح پہلے لوگوں کے پاس جب کوئی بھی رسول آیا تو انھوں نے کہا جادوگر ہے یا پھر پاگل۔ کیا سب نے باہم طے کرلیا ہے یا پھر وہ زیادتی کرنے والی قوم ہے۔ ‘‘ یہی تمام انبیاء کرام کی دعوتِ توحید رہی اور یہی ان کی جھٹلانے والی اور الزام تراشی کرنے والی قوموں کا مؤقف رہا۔ آج کے زمانے میں بھی جب کوئی اپنے بھائیوں کو اخلاقِ حسنہ اور صدق و امانت کی دعوت دیتا ہے تو کوئی ان کی مخالفت نہیں کرتا۔ اور جب اس توحید کی دعوت دیتا ہے کہ جس کی طرف تمام انبیاء کرام نے دعوت دی اور وہ ہے صرف ایک اللہ کو پکارنا اور اس کے علاوہ کسی نبی، ولی جو کہ اللہ کے بندے ہیں کو نہ پکارنا۔ تو لوگ اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں اور الٹے سیدھے الزام لگائے ہیں ، وہابی کا لقب دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی دعوت سے متنفر کیا جاسکے، حتی کہ جب توحید والی آیت پڑھتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں : یہ وہابی