کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 80
دعوت سے دل برداشتہ کردیں جو صرف ایک اللہ کو پکارنے کا کہتی ہے۔ ان جاہلوں کو یہ نہیں پتہ چلا کہ وہاب تو اس ربّ کا نام ہے، جس نے ان کو توحید جیسی نعمت دی اور اس پر جنت کا وعدہ فرمایا۔ معرکہ توحید و شرک: توحید و شرک کے معرکہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہے، جب انھوں نے ایک اللہ کی توحید اور بتوں کو چھوڑنے کی دعوت دی تھی۔ وہ ان میں نو سو پچاس سال تک دعوت دیتے رہے۔ قرآنِ حکیم نے قوم کا ردّ عمل یوں بیان کیا ہے: ﴿ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا o وَقَدْ اَضَلُّوا کَثِیرًا o﴾ [نوح:۲۳۔۲۴] ’’ انھوں نے کہا: اپنے معبود مت چھوڑدینا۔ اور ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو مت چھوڑنا۔ اور انھوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ ‘‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: یہ ان کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ ہلاک ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کی طرف وحی کی کہ جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے، وہاں ان کی شکل کے مجسمے نصب کردو۔ اور ان کا نام ان بزرگوں کے نام پر رکھ دو، تو انھوں نے یہ کردیا مگر ان کی عبادت نہیں کی۔ حتی کہ جب وہ لوگ ہلاک ہوگئے اور بات بھلادی گئی تو پھر ان کی پوجا شروع ہوگئی۔ (یعنی وہ لوگ پتھروں اور لکڑی کی بنی مورتیوں کی پوجا کرنے لگے۔ ) پھر جب نوح علیہ السلام کی قوم کو تباہ کردیا گیا، آپ علیہ السلام کے ہمراہ بچ جانے والے لوگوں کی اولاد زمین میں پھیلی اور قومیں آباد ہوگئیں تو ان میں اللہ کے پیغمبر آنا شروع ہوگئے، تاکہ لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی تلقین فرمائیں اور بتوں کو چھوڑنے کا حکم دیں جو کہ عبادت کے مستحق نہیں ہیں ۔ سنو! قرآن آپ کو ان کی بات بتاتا ہے کہ کیسے ہر نبی اپنی اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے: