کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 74
میں نے شیخ سے کہا کہ یہ حدیث اور اس کی شرح سے ثابت ہوتا ہے کہ غیراللہ سے مدد مانگنا جائز نہیں ۔ کہتا ہے جائز ہے! میں نے کہا: آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ غصے سے چلاتے ہوئے یہ استاذ کہنے لگا: میری پھوپھی شیخ سعد کو پکارتی ہے جو کہ میری مسجد میں مدفون ہے۔ اور کہتی ہے: یا شیخ سعد! (میری مدد کر) میں پوچھتا ہوں : پھوپھو! وہ تیرے کس کام آئے گا؟ تو وہ کہتی ہے: میں اس کو پکارتی ہوں تاکہ اللہ سے میری شفا کے لیے سفارش کرے۔ میں نے اس مولوی صاحب سے کہا: آپ عالم آدمی ہیں ۔ ساری عمر کتب بینی میں گزار دی اور عقیدہ آپ جاہل پھوپھی سے لیتے ہیں ؟ یہ مولوی کہنے لگا: تیرے نظریات وہابیوں والے ہیں ۔ تو عمرہ پر جاتا ہے اور ان کی کتب لے کر آتا ہے۔ اس زمانے میں مجھے وہابیت کا کچھ علم نہیں تھا۔ بس مولویوں سے سنا کرتا تھا کہ وہابی سب لوگوں کے مخالف ہیں ۔ اولیاء کرام اور ان کی کرامتوں کے منکر ہوتے ہیں ۔ وہابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے وغیرہ اور اس طرح کی دیگر جھوٹی تہمتیں ۔ میں دل میں کہتا کہ اگر وہابی ایک اللہ سے مدد مانگنے کا کہتے ہیں اور یہ کہ شافی صرف اللہ ہے، تو مجھے ان کے بارے جاننا چاہیے۔ چنانچہ میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا۔ کسی نے بتایا کہ وہ لوگ ایک جگہ جمعرات کی شام کو جمع ہوتے ہیں اور وہاں فقہ، حدیث اور تفسیر میں دروس ہوتے ہیں ۔ اب میں نے اپنی اولاد اور چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ساتھ لیا اور وہاں چلا گیا۔ ایک بڑا کمرہ تھا، اب ہم شیخ کے آنے اور درس کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک ادھیڑ عمر بزرگ داخل ہوئے۔ اس نے سب کو سلام کہا اور دائیں طرف سے شروع ہو کر سب سے مصافحہ کیا۔ پھر اپنی مسند پر بیٹھ گئے۔ کوئی بھی ان کی آمد پر کھڑا نہ ہوا۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ شیخ متواضع مزاج ہے۔ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لیے لوگ احتراماً کھڑے ہوں ۔