کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 72
یہ بھی ہے: (( اَللَّہُمَّ إِنِّي اَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔)) [1] ’’ اے اللہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ ‘‘ یعنی نہ تو میں کسی کو سکھاؤں اور نہ خود عمل کروں ، نہ ہی وہ میرے اخلاق و کردار پر اثر انداز ہو۔ وہ لوگ جو اپنے علماء کی ایسی باتیں مانتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں ، ان کا یہ رویہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے: (( لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِیَۃِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) [2] ’’ اللہ خالق کی مخالفت میں کسی مخلوق کی بات ماننا جائز نہیں ہے۔ ‘‘ اور یہ لوگ عنقریب قیامت والے دن پشیمان ہوں گے۔ ان کی اطاعت پر تب کی ندامت بھی مفید نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے راستہ پر چلنے والوں کے عذاب کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ﴿ یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا اَطَعْنَا اللَّہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُولَا o وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَائَ نَا فَاَضَلُّونَا السَّبِیلَا o رَبَّنَا آتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیرًا o﴾ [الاحزاب۶۶۔۶۸] ’’ اس دن جب ان کے چہرے جہنم میں اُلٹائے جائیں گے تو کہیں گے : کاش! ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانی ہوتی۔ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی تو انھوں نے ہمیں راہ سے
[1] صحیح مسلم: ۱۷/ ۳۷۰، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ۔ صحیح مسلم: ۱۷/ ۳۵۸۔ [2] مسند أحمد: ۸/ ۴۹۳۔