کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 68
بدبختی اور سابقہ اُمتوں کی بدبختی کا سبب ہے کہ جنھیں اللہ نے ان کے غیراللہ کو پکارنے کی وجہ سے ہلاک کردیا تھا۔ شرک کے خلاف جنگ اور توحید پر علماء کرام کا مؤقف: (۱)… علماء کرام کی ایک قسم وہ ہے جنھوں نے توحید اور اس کی اہمیت کو سمجھا، شرک اور اس کی اقسام کو جانا اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے لوگوں پر توحید اور شرک کو واضح کیا۔ اس سلسلہ میں ان کی دلیل یا قرآنِ کریم ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیثیں ہیں ۔ انبیاء کرام کی طرح ان کو بھی جھوٹی تہمتوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا، البتہ انھوں نے صبر کیا اور اس دعوت سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کے مدنظر اللہ کا یہ فرمان ہمیشہ رہتا ہے: ﴿ وَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیلًا ﴾ [المزمل:۱۰] ’’ ان کی باتوں پر صبر کریں اور احسن طریقے سے ان سے جان چھڑالیں ۔ ‘‘ قدیم زمانے میں لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی: ﴿ یَا بُنَیَّ اَقِمِ الصَّلَاۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا اَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ ﴾ [لقمان:۱۷] ’’ اے بیٹے! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک اور جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، یہ سب پختہ أمور میں سے ہے۔ ‘‘ (۲)… دوسری قسم کے وہ علماء لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کی بنیاد توحید کو چھوڑدیا۔ اور لوگوں کا عقیدہ درست کرنے کی بجائے ان کو نماز، حکومت، جہاد وغیرہ کی دعوت دینے لگ گئے۔ [1] گویا انھوں نے اللہ کا یہ فرمان سنا ہی نہیں ۔
[1] شیخ حفظہ اللہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ آج کل کی بعض تنظیموں اور کئی ایک گروہوں نے لوگوں کو عقیدۂ توحید خالص کی طرف دعوت دینے اور اسے ہی اپنی دعوت کی اساس بنائے بغیر اسلام کے بعض شعبوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کر رکھا ہے۔ اور وہ بھی منہج صحابہ کرام سے ہٹ کر خاص اپنے انداز میں ۔ مگر اصل جماعت حقہ کے علماء کرام نے دینِ حنیف سے دور عقیدۂ و عمل میں کمزور نوجوانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے اپنے مراکز میں دعوت دے کر ان کے عقیدۂ و عمل کو عین توحید و سنت پر درست کرنے کا عمل ایک عرصہ سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اور اس کے نتائج نہایت اعلیٰ نکلے ہیں ۔ نوجوانوں کو دعوتی مراکزمیں اس لیے جمع کیا جاتا ہے تاکہ توحید اور شرک کی وضاحت کرکے ان کے عقائد و اعمال کی اصطلاح کی جاسکے۔ (مترجم)