کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 64
﴿ الَّذِینَ آٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولَئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُونَ o﴾ [الانعام:۸۲] ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘ اس امن کا منبع دل کا اندرون ہے نہ کہ پولیس کی نگرانی۔ یہ ہے دنیا کا امن۔ باقی رہی بات آخرت کے امن کی تو وہ زیادہ عظیم تر اور باقی رہنے والا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کے لیے اخلاص حاصل کیا اور توحید میں شرک کی آمیزش نہ کی، اس لیے کہ شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔ (۴)… توحید قوتِ نفس کا منبع ہے، اس لیے کہ اس سے بندے میں ایک عظیم قوتِ نفس پیدا ہوتی ہے، جس کے ذریعے اس کا دل اللہ سے امید رکھنے، اس پر اعتماد اور بھروسہ کرنے، اس کے فیصلے پر خوش ہونے اور اس کی طرف سے آزمائش آجانے پر صبر کرنے اور اس کی مخلوق سے بے پرواہ ہوجانے پر سیر نہیں ہوتا۔ یہ بندہ چٹان کی طرح مضبوط ہوتا ہے۔ جب اس پر تکلیف نازل ہو تو وہ اپنے رب سے اس کو ختم کرنے کے لیے دُعا کرتا ہے، مردوں سے بالکل مددنہیں مانگتا۔ ہر وقت اس کا شعار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان رہتا ہے: (( إِذَا سَاَلْتَ فَاسْاَلِ اللَّہَ وَإِذَا اسْتَعنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّہِ۔)) [1] ’’ جب بھی مانگو اللہ سے مانگو اور جب بھی مدد طلب کرو تو اللہ سے۔ ‘‘ اور اللہ کا یہ فرمان بھی اس کے مدنظر رہتا ہے: ﴿ وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ﴾ [الانعام:۱۷] ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کو رفع بھی صرف وہی کرسکتا ہے۔ ‘‘
[1] سنن الترمذي، ج: ۹، ص: ۴۳۰، کتاب صفۃ القیامۃ، باب قول النبی یاحنظلۃ ساعۃ وساعۃ، حدیث: ۲۵۱۶۔