کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 61
ہیں اور اللہ کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم علیہا السلام کی طرف إلقاء کیا تھا۔ اور وہ اللہ کی طرف سے روح ہیں ۔ جنت اور جہنم حق ہیں تو اللہ اس کو جنت میں داخل کردے گا، خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں گے۔ ‘‘ یعنی مذکورہ شہادتوں کو ان أصولوں کے مطابق دینا بندے کا نعمتوں والی جنت میں داخلہ واجب کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعض اعمال میں کمی کوتاہی ہو یا وہ قابل مؤاخذہ ہوں ۔ جیسے کہ ایک حدیث قدسی میں بھی ہے: (( یَا ابْنَ آدَمَ إِنَّکَ لَوْ اَتَیْتَنِي بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا، ثُمَّ لَقِیتَنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَیْئًا، لَاتَیْتُکَ بِقُرَابِہَا مَغْفِرَۃً۔)) [1] ’’ اے آدم زادے! اگر تو میرے پاس زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر مجھے ملے اس حال میں کہ میرے ساتھ شرک نہ کرتا ہو تو میں اتنی ہی بخشش دے دوں گا، (یعنی جنت کا وارث بنادوں گا)۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تیرے گناہوں سے تقریباً ساری زمین بھرجائے لیکن تیری موت توحید پر ہوئی تو میں تیرے سارے گناہ معاف کردوں گا۔ دوسری حدیث میں ہے: (( مَنْ لَقِيَ اللَّہَ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَہُ یُشْرِکُ بِہِ دَخَلَ النَّارَ۔)) [2] ’’ جو شخص اللہ کو ملا اور وہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہوا تو جنت میں داخل ہوگا۔ اور جو شخص کسی کو شریک ٹھہراتا ہوا تو جہنم میں جائے گا۔ ‘‘[3]
[1] سنن الترمذي: ۱۳/ ۵۶، کتاب الدعوات، باب مغفرۃ اللّٰہ لخطایا العبد۔ [2] صحیح مسلم: ۱/ ۳۳۳، کتاب الإیمان، باب مَنْ مَا لَا یُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ [3] ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ گناہ گار توحید والے جنت میں جائیں گے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ سب گناہ گار سزا کے بغیر جنت میں جائیں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کبیرہ گناہ (چوری، زنا، قتل، شراب، ترکِ جہاد وغیرہ) کرنے والے لوگوں کو اگر اللہ نے معاف نہ کیا تو پھر ان کو سزا کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔ پھر سزا پوری ہونے پر جنت میں جائیں گے۔ لیکن توحید سے خالی لوگ یا شرک کرنے والے مسلمان ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ البتہ اگر کسی بھی کافر یا مسلمان کو موت سے پہلے کلمہ طیبہ نصیب ہوگیا اور اخلاص بھی نصیب ہوگیا تو اللہ تعالیٰ دیگر سابقہ شرک کے کام معاف فرمادے گا۔ مگر حقوق العباد میں اگر کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا تو پھر چاہے اللہ معاف کردے اور چاہے اس کو سزا دے، تاہم جنت میں وہ ضرور جائے گا۔ (مترجم)